Latest Urdu news from Pakistan - Peshawar, Lahore, Islamabad

تحریک انصاف کے سابق رکنِ صوبائی اسمبلی بلدیو کمار کی بھارت سےسیاسی پناہ کی درخواست، بھائیوں نے عدم تحطظ کے الزامات کو مسترد کر دیا

سوات: پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکنِ صوبائی اسمبلی بلدیو کمار کے بھائیوں امرناتھ اور تلک کمار نے ان کے بھائی کی جانب سے پاکستانیوں میں اقلیتوں کے عدم تحفط کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ہمیں اپنے حقوق مل رہے ہیں۔

اپنے بھائی کی جانب سے بھارت میں پناہ کی درخواست کی اطلاعات کے بعد پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ بلدیو کمار کے حوالے سے بھارتی میڈیا کا پروپیگینڈہ بے بنیاد ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کو کوئی خطرہ نہیں۔

دونوں بھائیوں کا کہنا تھا کہ بلدیو کمار سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ تا حال لاپتہ ہیں، ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے کہ بلدیو کمار سے زبردستی بیان لیا گیا ہو۔ خیال رہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سابق اقلیتی رکن بلدیو کمار نے بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ’پاکستان میں اقلیتوں کو تحفظ حاصل نہیں‘۔

مذکورہ بیان منظر عام پر آنے کے بعد ردِ عمل دیتے ہوئے خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا تھا کہ ’اقلیتوں سے متعلق بلدیو کمار کا بیان انتہائی مایوس کن ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس 26 اپریل کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر سورن سنگھ کے قتل کے الزام میں گرفتار بلدیو کمار کو بونیر کی انسداد دہشت گردی عدالت نے عدم ثبوت پر شک کا فائدہ دیتے ہوئے رہا کردیا تھا۔

وزیر اطلاعات نے بتایا تھا کہ ’بونیر کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے خیبرپختونخوا کے مشیر سورن سنگھ کے قتل میں بلدیو کمار کو رہا کردیا تھا تاہم مقتول کے اہلخانہ تاحال بلدیو کمار کو قاتل گردانتے ہیں‘۔

اپنے ویڈیو پیغام میں شوکت یوسف زئی نے کہا تھا کہ بلدیو کمار کی جانب سے بھارت میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینا ان کا ذاتی فیصلہ ہے کیونکہ ان کی اہلیہ بھی بھارتی شہری ہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر سائس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی بلدیو کمار کے بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’بھارت میں لوگ کس بات کی خوشی منا رہے ہیں، ایک ملزم پاکستان میں مقدمے سے بچنے کے لیے سیاسی پناہ حاصل کررہا ہے‘۔

یاد رہے کہ 22 اپریل 2016 کو خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے مشیر برائے اقلیتی امور اور رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سردار سورن سنگھ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سورن سنگھ کو قتل کرنے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سورن سنگھ کو سکھ مذہب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ حکومتی عہدیدار ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔

تاہم واقعے کے 3 روز بعد ہی ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مالاکنڈ آزاد خان نے پشاور میں میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ سورن سنگھ کو الیکشن کے لیے ٹکٹ نہ ملنے کے تنازع پر اجرتی قاتلوں کے ذریعے قتل کروایا گیا۔ بعد ازاں سورن سنگھ قتل کیس میں بلدیو کمار سمیت 6 ملزموں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.