Latest Urdu news from Pakistan - Peshawar, Lahore, Islamabad

جج ارشد ملک ویڈیو کیس،سپریم کورٹ نےاٹارنی جنرل سےتجاویز طلب کر لیں

اٹارنی جنرل کلبھوشن کیس کیلئے ہیگ گئے ہیں، اٹارنی جنرل واپس آ کر اپنی تجاویز جمع کرا دیں گے,جج کا معاملہ عدالت دیکھے گی، ہر روز معاملے سے متعلق معلومات آرہی ہیں، اس گرد کو اب بیٹھ جانا چاہیے، ہم ایسی تجویز چاہتے ہیں جس سے جذبات کے بغیر فیصلہ کیا جاسکے،جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس

اسلام آباد۔سپریم کورٹ نےجج ارشد ملک مبینہ ویڈیو سکینڈل کےمعاملےپراٹارنی جنرل سےتجاویز طلب کرتےہوئےکہاہےکہ تینوں درخواست گزاروں کی تجاویز نوٹ کرلی ہیں،اٹارنی جنرل کلبھوشن کیس کیلئےہیگ گئےہیں،اٹارنی جنرل واپس آکراپنی تجاویزجمع کرادیںگے،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نےجج ویڈیواسکینڈل کیس میں ریمارکس دیتے ہوئےکہاہےکہ کچھ ایسا کلچربن گیا ہےکہ ایک کےخراب ہونے پرسب کو ایسا سمجھا جاتاہے،کہاجاتا ہےکہ سارےجج ایسے ہیں،سارےسیاستدان ایسےہیں،بنی نوع انسان کی پیدائش سےسچ کی تلاش جاری ہے، عدالت نےکچھ کرناہوگا تو خودکرےگی،مطالبےپرکچھ نہیں کریںگے،عدالتیں لوگوں کےکہنےپرکچھ نہیں کرتیں،غیرذمہ دارانہ بیانات ہمارےمعاشرےکا بہت بڑا المیہ ہے،سب جج، پٹواری، سیاستدان، بیوروکریٹ، پولیس افسران ایسےہیں،ایسے بیانات سےلوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے، یہاں غیر ذمہ دانہ کلچر ہو گیا ہے کہ جنرل اسٹیٹمنٹ دے دیتے ہیں ، ایسے بیانات ذمہ دارنہ لوگوں کو نہیں دیناچاہیے،سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ دیا تو ہائی کورٹ پابند ہو جائے گی،

اس میں کوئی شک نہیں کہ جوجج نےکہا وہ انتہائی غیر معمولی باتیں ہیں، ہمیں بتائیں ہم کیا کر سکتے ہیں کیا نہیں، وکیل نے جج کو کرسی ماری یہ بھی غیرمعمولی معاملہ ہے لیکن ایک جج نے وکیل کو پیپرویٹ مارا تو کیا یہ غیر معمولی معاملہ نہیں؟، ملک میں جتنے مقدمات درج ہوتے ہیں، جتنی تفتیش ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ کے حکم سے ہوتی ہیں،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلا نقطہ ادارے کا معاملہ ہیں، جج کا معاملہ عدالت دیکھے گی، ہر روز معاملے سے متعلق معلومات آرہی ہیں، اس گرد کو اب بیٹھ جانا چاہیے، ہم ایسی تجویز چاہتے ہیں جس سے جذبات کے بغیر فیصلہ کیا جاسکے۔ منگل کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل کیس کی انکوائری کے لیے دائر تین مختلف درخواستوں پر سماعت کی۔درخواستیں اشتیاق احمد مرزا، سہیل اختر اور ایڈوکیٹ طارق اسد نےدائر کی ہیں جس میں وفاقی حکومت، نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی اور راجہ ظفر الحق کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواستوں میں جج ارشد ملک، ویڈیو کے مرکزی کردار ناصر بٹ اور پیمرا کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔دائر درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ لیک شدہ ویڈیو کی انکوائری کا حکم دے اور جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنےکیلئے ملوث افراد کیخلاف توہین عدالت کی کاروائی کی جائے۔ عدالت میں سماعت کےآغازپردرخواست گزار اشتیاق مرزا کےوکیل منیرصادق نے دلائل دیےکہ ویڈیو لیکس اسکینڈل کےذریعےعدلیہ پر سوالات اٹھائے گئے، یہ عدلیہ کی آزادی اور وقار کے حوالے سے ایک اہم اور حساس معاملہ ہے، لہذا عدالت اس معاملے کی تحقیقات کروا کر ذمہ داران کا تعین کرے۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ یہ مقدمہ مفاد عامہ کا ہے، مریم نواز نے 6 جولائی کو لاہور میں پریس کانفرنس کی، جس میں کچھ الزامات لگائے گئے، جس میں کہا گیا کہ عدلیہ دبا میں کام کر رہی ہے۔وکیل نے کہا کہ یہ سنگین الزامات ہیں، اس کی انکوائری ہونی چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے کیا ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میں سچ کی تلاش چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور وکلا نے ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا کہا، لہذا ایک کمیشن بنایا جائے، بے شک یہ کمیشن ایک رکنی ہی کیوں نہ ہو۔

وکیل کے جواب پرچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کمیشن کا سربراہ کون ہو، جس پر وکیل نے کہا کہ جج کمیشن کے سربراہ ہو، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ ایسا کلچر بن گیا ہے کہ ایک کے خراب ہونے پر سب کو ایسا سمجھا جاتاہے،کہا جاتا ہےکہ سارے جج ایسے ہیں،سارے سیاستدان ایسے ہیں۔

چیف جسٹس نےپوچھا کہ یہ بتائیں کہ کمیشن کیادیکھے،اس پروکیل نےکہاکہ کمیشن سچائی کودیکھےکہ اگر الزام ثابت ہوتوان کےخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے۔دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ احتساب عدالت کےجج نےبیان حلفی کے ذریعے کچھ حقائق بیان کیے، وزیر اعظم عمران خان نے بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ عد لیہ ویڈیو کے معاملے پر نوٹس لینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور امیرجماعت اسلامی نے بھی عدلیہ سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ عدلیہ تحقیقات کرے، اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل نے بھی یہی مطالبہ دہرایا۔وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کے کہنے پر کوئی کام کریں گے تو کیا ہم آزاد ہوں گے،ازخود نوٹس کسی کےمطالبے پرلیں توپھر وہ ازخود نوٹس نہیں ہوا۔

اس پر چیف جسٹس نےریمارکس دیےکہ جب سےبنی نوع انسان کی پیدائش ہوئی ہے،سچ کی تلاش جاری ہے،اگر یہ سچ تلاش کرناہےتو پھر جن ججوں نےمرکزی اپیل سنی ہےوہ کیا کریں گے۔

چیف جسٹس نےکہاکہ سپریم کورٹ نےکوئی فیصلہ دیاتو ہائی کورٹ پابند ہوجائےگی،پھر ہائی کورٹ کیسےکارروائی کرےگی۔اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ فیصلہ سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ کمیشن کی فائنڈنگ پر ہو، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کواسی طرف لےکرآنا چاہ رہاتھا،کمیشن کی فائنڈنگ پرکوئی عدالت نوٹس نہیں لےسکتی۔اس دوران درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر دوسرے درخواست گزار سہیل اختر کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دینا شروع کیے۔

اکرام چوہدری نے دلائل دیے کہ مریم نواز کا بیان ہے کہ نواز شریف کے خلاف دباو پر فیصلہ کیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے عدالت میں نوازشریف کا بیان اور جج ارشد ملک کا بیان حلفی بھی پڑھا۔وکیل نے کہا کہ کسی ادارے پر سے اعتبار اٹھنا بذات خود بنیادی حقوق کا معاملہ ہے،ان جج کے بیان کو انتہائی احتیاط سے دیکھنا چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو جج نےکہا وہ انتہائی غیر معمولی باتیں ہیں، ہمیں بتائیں ہم کیا کر سکتے ہیں کیا نہیں چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل نے جج کو کرسی ماری یہ بھی غیرمعمولی معاملہ ہے لیکن ایک جج نے وکیل کو پیپرویٹ مارا تو کیا یہ غیر معمولی معاملہ نہیں؟۔

اس پر وکیل نےجواب دیا کہ اگرعدلیہ سے متعلق بیانات جاری رہےتو پھر ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنےمیں دباو ہوگا۔سماعت کے دوران جسٹس عمرعطا بندیال نےکہا کہ پہلا نقطہ ادارے کا معاملہ ہیں،جج کا معاملہ عدالت دیکھےگی،ہرروز معاملےسےمتعلق معلومات آرہی ہیں،اس گرد کو اب بیٹھ جانا چاہیے۔

انہوں نےکہاکہ ہم ایسی تجویزچاہتےہیں جس سےجذبات کےبغیرفیصلہ کیاجاسکے،اس پروکیل صفائی نےکہاکہ سپریم کورٹ توہین عدالت کی کارروائی کا آغازکرے۔اس پرچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ جو الزامات جج پر لگائےگئےہیں،اس معاملےکو کون دیکھے گا، کیا وہ جج خود دیکھے گا جس پر الزامات ہیں۔

سماعت کےدوران وکیل نے استدعا کی فوجداری اورسائبر قوانین کے تحت عدلیہ معاملے کی تحقیقات کروائے، جس پرچیف جسٹس نےپوچھا کہ ملک میں جتنے مقدمات درج ہوتے ہیں، جتنی تفتیش ہوتی ہے،کیا سپریم کورٹ کےحکم سےہوتی ہیں

۔وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ بیانات اور پھر جوابی بیانات کی وجہ سے عدلیہ کی تضحیک ہورہی ہے،اس پرچیف جسٹس نےریمارکس دیے کہ ہم اسی وجہ سے اس مقدمے کو سن رہے ہیں۔دونوں درخواست گزاروں کے وکیل کےدلائل مکمل ہونےپرکیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نےجج ارشد ملک مبینہ ویڈیو سکینڈل کے معاملےپراٹارنی جنرل سےتجاویزطلب کرتےہوئےانہیں نوٹس جاری کردیا۔ چیف جسٹس نےکہاتینوں درخواست گزاروں کی تجاویزنوٹ کرلی ہیں،اٹارنی جنرل کلبھوشن کیس کیلئےہیگ گئےہیں،اٹارنی جنرل واپس آ کر اپنی تجاویزجمع کرادیں گے۔عدالت نے کیس کی سماعت 23 جولائی تک ملتوی کر دی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.