Latest Urdu news from Pakistan - Peshawar, Lahore, Islamabad

وفاقی وزیر قانون نے سر عام پھانسی دینے کی قرارداد کی مخالفت کردی

اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی اور قبل کے مجرمان کو سر عام پھانسی دینے کی سزا کی منظور ہونے والی قرارداد کی مخالفت کردی۔  اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ‘سر عام پھانسی نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے بلکہ اسلامی احکامات کے خلاف بھی ہے’۔ مییڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر قانون نے 1994 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ برے سے برے مجرم کو بھی سر عام پھانسی دینا اس کے انسانی وقار کے خلاف اور آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘وزارت قانون کوئی ایسی چیز پیش نہیں کرے گی جو قانون اور آئین کے خلاف ہی نہیں بلکہ اسلام کے خلاف بھی ہو، اگر کسی کو اس فیصلے سے اعتراض ہے تو وہ عدالت عظمیٰ سے اس کے نظر ثانی کی درخواست کرے’۔

انہوں نے یاد دلایا کہ کس طرح 1994 میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی جسٹس شفیع الرحمٰن، جسٹس سعد سعود جان، جسٹس عبدالقدیر چوہدری اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے خصوصی عدالت کے فوری ٹرائلز ایکٹ 1992 کے سیکشن 10 میں تجویز دیے گئے سر عام پھانسی کے خلاف از خود نوٹس لیا تھا۔

آئین کے آرٹیکل 14(1) کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ہر شخص کا وقار اور عزت نفس ناقابل تسخیر ہے اور یہ ضمانت صرف قانون کے تابع نہیں تھی۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ہر صورتحال میں ہر شخص کا وقات ناقابل تسخیر ہے اور برے سے برے مجرم کی سر عام پھانسی اس شخص کے وقار کے خلاف ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.