راولپنڈی اور اسکے دیسی کھابے— پارٹ 2
انسانی تاریخ و تہزیب میں روز اول سے چند باتیں مشترک ہیں جیسے کہ کسی بھی شہر کی معاشی نمو کے لیے تجارتی راستہ یا پھر آبی راہ گزر بہت ضروری ہوتا ہے۔راولپنڈی شہربھی کچھ ایسا ہی محل وقوع رکھتا ہے جہاں جرنیلی روڈ یعنی جی ٹی روڈ اور دریاےَ سواں دہائیوں سے اپنی آب وتاب برقراررکھے ہوےَ ہیں۔ کالم کے روائیتی تعارف کے بعد بات اگردوبارہ گزشتہ سے پیوستہ پکوانوں کے ذکر پر آجاےَ تو کوئی مضحاقہ نہ ہو گا۔
اندرون راولپنڈی کے کھابے پارٹ 1 یہاں پڑھیں
سیٹلائیٹ ٹاوّن کا شمارراولپنڈی کے پوش علاقوں میں ہوتا ہے۔ کمرشل مارکیٹ اس کا اہم تجارتی مرکز جانا جاتا ہے۔ جہاں لگ بھگ ڈیڈھ دہائی پہلے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک خاتون نے ریفریشمنٹ کے نام سے ایک ہوٹل کھولا جو کہ بہت کامیاب ہوا۔ یہاں کی سموسہ چاٹ بہت مشہور ہے۔ دہی بھلے اور فروٹ چاٹ کے ساتھ دیگر لوازمات بھی بہت عمدہ ذائقے کے ساتھ دستیاب ہوتے ہیں۔ اس ہو ٹل کی ایک اور خاص بات کے شہر میں پہلی بار رول پراٹھ اور شوارما انھوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔ مگر یہاں جاتے وقت آپ کو اکثر پارکنگ کا مسئلہ درپیش رہے گا۔ نوے کی دہائی میں جب شہر میں پولکا اور یمی آئس کریم کا بول بالا ہوتا تھا تب یہاں کون آئس کریم متعارف ہوئی تھی اور آج سارے شہر میں جگہ جگہ میسر ہے۔
اس کے بعد چاندنی چوک میں ماموں برگر کا بہت نام چلتا ہے نوے کی دہائی میں جب امریکی تسلط پروان چڑھ رہا تھا تب امریکی کھانوں کا بھی بول بالا ہو نے لگا جس میں سر فہرست ہاٹ ڈاگ بر گر کی تھی مگر اس برگر کے ساتھ تھوڑی گڑ بڑ ہو گئی۔ شہر میں اس سے پہلے یوکے نسل کے گول برگر ہی کھاےَ جاتے تھے۔ مگر امریکی پکوان کی نقالی میں لمبا برگرانڈے اور شامی کباب کے عجیب مگر لذیز امتزاج کے ساتھ اپنے بام عروج پر پہنچا۔ مگر اس گہما گہمی میں ہاٹ ڈاگ یعنی کہ سا سجز کہیں گم ہو کے رہے گئے۔ مگر ٹھہریئے جناب شہر کے ایک اور کوچے میں ایک فرد واحد کے پاس یہ دستیاب ہوتے ہیں۔
لال کرتی بازار کی مرکزی جامع مسجد جیسے بڑی مسجد بھی کہا جا تا ہے کی سامنے والی گلی جو کنٹونمنٹ کے کا غذوں میں تو گاندھی گلی ہے مگرغلط عام میں اسے گندی گلی کہا جاتا ہے کے نکڑ پر آج بھی روز شام کو ایک ادھیڑ عمر شخص سیا ہ کالے توےَ پر ساسجز بھون ہار ہوتا ہے اور مقامی لوگ اسے "ساسنٹ” کا نام لے کر خریدتے اور کھاتے ہیں مگریہ یہ ساسنٹ یا ساسجز عمومی طور پر نان کے ساتھ کھاےَ جاتے ہیں۔اور ھذا قاری پورے وثوق کے ساتھ یہ بات لکھ رہا ہے کہ پورے شہر میں یہ واحد آدمی ہے جو دیسی ساسجز بناتا ہے ورنہ دیگر صورت آپ کو ہاٹ ڈاگ یا ساسجز عرف ساسنٹ صرف فاسٹ فوڈز یا پھر فروزن فوڈ میں ہی ملےگا۔ اس کے علاوہ لال کرتی میں ڈاک خانے کے پاس ملا کا چاےَ خانہ اور لدھیانہ ٹی شاپ ہےجہاں صرف چاےَ بنتی ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی چیز دستیاب نہیں ہوتی مگر رش ہے کہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ لال کرتی کے کھابوں میں صبح کے ناشتے میں طارق اور بلو کے پاےَ بہت مشہور ہیں۔ طارق صبح سویرے پرانے سینما کے سامنے دوکان سجاتا ہے جب کہ بِلوکی دوکان مرکزی جامع مسجد والی گلی میں ہے۔ ان دونوں میں بلو کے پاےَ زیادہ منفرد ہیں۔ کیوں کہ یہ بونگ پاےَ بناتا ہے عمومی طور پربونگ کا گوشت بڑے جانور کی گردن کے گوشت سے تیار کیا جاتا ہے۔اور وہ نہاری میں استعمال ہوتا ہے۔ لاہورمیں زیادہ تر سر پا ےَ کھاےَ جاتے ہیں جس میں بڑے جانور کی سری سے خاص طور پر جبڑے کا گوشت استعمال کیا جاتا ہے جو پاےَ کے سالن کو گاڑھا بنا دیتا ہے۔ راولپنڈی میں صرف پاےَ بناےَ جاتے ہیں جس کا سالن گاڑھا نہیں ہوتا۔ بلو کے پاس بونگ پاےَ کی یہ وارئٹی خستہ نانوں کے ساتھ بہت مزہ کرتی ہے۔ جس میں آپ بیک وقت پاےَ اور نہاری کے مزے لے سکتے ہیں۔اس کے علاوہ شہر میں پان کے کڑک پتے کے لیےلال کرتی کے پانوں کا جواب نہیں اس کے بعد پان کا عمدہ ذائقہ آپ کو صدر مٹھو کے احاطے سے منسلک گلیوں میں پان کی دوکانوں پر ملےگا۔ پان کے علاوہ لال کرتی کی خاص با ت یہاں کاخاص لیمن سوڈا ہے جو سالوں سے اپنے اثر قائم رکھا ہوا ہے
شہر میں دن کے وقت آپ کو تازہ اور بہترین پھلوں کے رس یا پھر ملک شیک کے لیے شہر کے کسی بھی بڑے سرکاری ہسپتال کے سامنے یا اردگرد کے علاقے میں اچھی دوکانیں مل جاتی ہیں ۔ جن میں سینٹر ہسپتال مری روڈ، ریلوے ہسپتال صدر، ڈسڑک ہسپتال راجہ بازار اور ہولی فیملی ہسپتال شامل ہیں شاہد اس انفرادیت کا تانہ بانہ مر یضوں کی تیمار داری سے منسلک ہومگر ذائقے کی مد میں یہ بہترین ہوتے ہیں۔
شہر کی جن دوکانوں میں موسم سرما میں گراٹو جیلبی ملتی ہے ان ہی دوکانوں پر موسم گرما میں باداموں والا شربت ملتا ہے جس کی خاص بات اس کا شربت ہے جو کہ سندھ سے منگوایا جاتا ہے جس کا نام معاذ تھادل ہے یہ سندھ کا ثقافتی مشروب ہے اور اس کا ذائقہ جام شریں اور روح افزا َسے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ کالج روڈ چائینہ مارکیٹ کے ساتھ لاہوری سموسے والے کے سموسے کھانے میں بہت ہی ہلکے ہوتے ہیں ۔ اس شہر کے لوگوں کا کھانے کی دینا میں الگ ہی رواج ہے یہ کسی بھی چیز کو اپنا نام نہیں دیتے۔ اگر کسی سال کھیتوں میں پالک مولی کے پتے مختلف شکل کے نکل آئیں توفٹ سے وہ سبزی لاہوری ہو جا تی ہے جس کا لاہور شہرمیں دور دور تک کوئی اتہ پتہ نہیں ہوتا۔ غرض پنڈی وال سب کچھ بنا لیتے ہیں مگر کسی پکوان کو اپنا نام نہیں دیتے۔
شہر میں تین فوڈ سٹریٹ ہیں ایک اندرون میں جس کا ذکر پچھلے کالم میں کر چکا ہوں۔ دوسری ڈبل روڈ پر اور تیسری صدر بازار میں واقع ہے۔ ڈبل روڈ میں والی فوڈ سٹریٹ میں بار بی کیو میں خبیر دربار کے سیخ کباب لاجواب ہو تے ہیں جبکہ چکن کڑاہی میں شہنشاہ والے کا اچھا نام بولتا ہے۔ اور یہاں کی سیور پلاوّ کباب کی پرانچ میں کیرمل کرنچ آئس کریم فیلور کا جواب نہیں۔ صدر فوڈ سٹریٹ میں سکوپ آئس کریم اور چمن والے کا بہت نام ہے۔ چمن والے کے پاس شوگر فری آئس کریم فیلور بھی بہت عمدہ ہو تا ہے۔
صدر بازار کے پکوانوں میں اس کے علاوہ سٹی مال کے عقب میں موسم سرما میں چند افغانی لڑکے چکن کارن سوپ لگا تے ہیں جس میں سے آذربئیجان باکو اور وسطی روس کے علاقوں کے ذائقے کی مہک آتی ہے۔ اس کے علاوہ صدر بازار کی جان حق باہو ربڑی بہت مشہورہے ان کے ہاں دیگر مشروبات بھی ہیں مگر ربڑی کے علاوہ ٹھنڈے دودھ کی کیا ہی بات ہے جو گرمیوں میں کلیجے میں ٹھنڈ ڈال دیتی ہے۔ اس کے بعد صدر بازارکے کریم ہوٹل کے سموسے اور چٹنی بہت مشہور ہیں۔ اس چٹنی کی خاص بات اس کا خاص ذائقہ ہے جو کہ کچے اخروٹ کے سبز پھل سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کے بعد سیروز سینما کی لوبیا چاٹ کا کوئی جواب نہیں جو سالوں سے لوگوں کا دل لبھا رہی ہے۔ اس کے علاوہ کےسیروز سینما جو کہ اب تھیٹرمیں تبدیل ہو گیا ہے کہ سامنے انڑنیشنل برگر کا گول چکن چیز برگر کسی بھی فاسٹ فوڈ چین سے زیادہ مزے کا نہیں تو اسی سے کم بھی نہیں ہوتا۔ انٹرنیشنل برگر کے ساتھ مشہور زمانہ داتا کبانہ کا ہوٹل ہے اگر آپ کے شہر میں اچھا چپل کباب یا پھراچھا بار بی کیو کھانا ہو تو بلا ججھک داتا کبانہ کو آزمایہ جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ صدر میں چھوٹا بازار باوّ محلہ سے منسلک چک بازار میں کارنر فوڈ کے چاول چنےاور مرغ چاول بہت مزے کے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ صدر میں ہاتھی چوک پر مصطفی دارالماہی پر سردیوں میں فرا ئی مچھلی کے لیے ٹیبل ڈھونڈنا جوےَ شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ صدر بازار میں ہی جہانگیر بالٹی کا پالک پینر بہت شاندار ہوتا ہے۔ ماضی میں جب ملکہ الزبیتھ اور لیڈی ڈیانا مختف ادوار میں دورہ پاکستان میں آئیں تو دونوں کے لیے جہانگیر بالٹی کا پالک پینرپر بطور خاص ایوان صدر سے منگوایا جاتا رہا ہے۔ شہرمیں دوجگہ خیراتی ہوٹل بھی موجود ہیں ایک صدر کوئلہ بازار کے پاس اور دوسرا بڑی جامع مسجد روڈ پر واقع ہے۔ ان دونوں ہوٹلوں پر مخیر حضرات جن میں زیادہ تعداد تاجر برادری کی ہوتی ہے ہوٹل کےغلے میں پیسے ڈال جاتے ہیں اور ہوٹل والے ان پیسوں کا کھانا بنا کرخلق خدا میں مفت تقسیم کر دیتے ہیں۔
حالیہ کچھ برسوں میں شہر میں کو ئٹہ ہوٹلوں کی آمد آمد ہوئی ہے ان تمام ہوٹلز میں بلاشبہ ذائقہ موجود کا صیغہ لازم ہے۔ان ہو ٹلز کی خاص بات ان میں سے اکژکی چوبیس گھنٹے کی سروس اور ان کے لچھے دار پراٹھے اور چاےَ ہیں۔
راولپنڈی شہر کے تین بڑے داخلی اور خارجی راستے ہیں۔ ایک جی ٹی روڈ روات کی طرف جاتا ہے جہاں بنوں بیف پلاوّ جس میں بھینس کا گوشت ڈلتا ہے، سیپن غر شنواری اور میاں جی کی دال لالہ موسی والے اور بابا فضل شاہ کلیامی کے نام سے جڑے بہت سے ہوٹل اپنی اپنی دھاک بٹھاےَ ہوےَ ہیں۔ دوسرا بڑا راستہ پشاور روڈ ٹیکسلا حسن ابدال کو جاتا ہے جہاں شنواری، نمک منڈی دنبہ کڑاہی اور ٹرک ڈرائیور ہوٹل کی بھر مار ہے۔ اور تیسرا بڑا راستہ بارہ کہو مری کو جاتا ہے جہاں پہاڑی راستوں کی وجہ سے چیدہ چیدہ دیسی کھابوں کے ہوٹل اپنے اپنے گاہکوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
شہر میں روائتی مٹھائی گھروں کے علاوہ ڈھاکہ سوئیٹ جہاں بنگلالی طرز کی مٹھائیاں بہت عمدہ ہوتی ہیں جن میں رس ملائی، رس گلے اور بنگالی دہی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شکار پوری سوئیٹ جہاں شکار پورکی برفی اوردوسری بہت سی سندھی نسل کی مٹھائیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ حالیہ کچھ عرصے میں شہر میں نئے پکوانوں نے دم بھرنا شروع کیا ہے۔ جن میں چکن ملائی بوٹی، ریشمی کباب، گولہ کباب، اور وائٹ قورمہ کے طرز پر کھانے پکاےَ جا رہے ہیں مگر یہ سب دودھ ،دہی ، مکھن یا ملا ئی کے امتزاج اور ملاوٹ سے نئے پیکٹ میں پرانی چیز والی بات ٹھہر جاتی ہے۔ یہ سب کار گزاری چکن مکھنی کڑاہی سے متاثر ہو کر عمل میں لائی گئی ہے مگر خاص فرق نہیں پڑا مگر یہ سب ذاتی راےَ بھی ہو سکتی ہے۔
تندرستی ہزار نعمت ہے اور اچھا کھانا تندرستی کا ضا من ہے مگرضرورت اور جسم کے مطابق کھانا کھانا ہی ہمیں بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے ورنہ پر ہیز سے علاج بہتر ہے۔ہم پنڈی وال اس شہر کے باسی ہیں ہم نے اس شہر کوپروان چڑھتے دیکھا ہے ہم اس کے بدلتے وقتوں کے گواہ رہے ہیں۔ ہم نے پنڈی شہر کو ایسے دیکھا ہے جیسے وہ ہماری پہلی محبت ہو۔ یہاں ہم نے راجہ بازار کی ریڈ لا ئٹ گلیوں سے اسلام آباد کے ریڈ زون تک آوارہ گردی میں بھات بھات کا پانی پیا ہے۔ خدا اس شہر کو ہمارے لئے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے صدا سلامت رکھےآمین۔
ہم نہ ہوں گئے ہم سا کوئی ہو گا
مگریہ وقت کس نے دیکھا ہو گا۔