گلگت بلتستان کے سینیئر وزیر عبید اللہ بیگ سمیت سیاحوں کو یرغمال بنانے والے مسلح شدت پسند گروہ اور گلگت بلتستان حکومت کے درمیان مذاکرات کے بعد سینیئر وزیر، ان کے بیٹے سمیت تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق مسلح شدت پسند گروہ اور حکومت کے مابین مذاکرات میں طے پایا ہے کہ مسلح گروہ کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات پر دس دنوں کے اندر ٹھوس پیش رفت ہو گی۔ مذاکرات کے موقع پر مسلح شدت پسند گروہ کے سربراہ مولوی عبدالحمید نے کہا کہ ’انھیں امید ہے کہ ان کے ساتھ کیا گیا وعدہ ایفا ہو گا اور دس روز میں ہمارے مطالبات پر پیش رفت ہوگی۔ پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں انھوں نے شدید ردعمل اور احتجاج کی دھمکی بھی دی ہے۔ یاد رہے کہ ایک مسلح شدت پسند گروہ نے گلگت بلتستان حکومت کے سینیئر وزیر کرنل (ر) عبیداللہ بیگ کو گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کی حدود میں بابوسر ٹاپ کے قریب یرغمال بنا لیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق یرغمال ہونے والوں میں سینیئر وزیر کے ہمراہ کچھ سیاح بھی موجود تھے جبکہ شدت پسند گروہ نے عبیداللہ بیگ کے ذریعے اپنے مطالبات حکومت کو پیش کیے تھے۔ کرنل (ر) عبیداللہ بیگ نے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’وہ یہ نہیں کہیں گے کہ اُنھیں اغوا کیا گیا ہے۔ بس یہ ہے کہ ہمیں اور کچھ دیگر لوگوں کو یہاں پر ایک دوسرے سے فاصلے پر بٹھایا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہمیں یہاں پر بٹھا دیا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ افراد نے کسی کے ساتھ بھی بدتمیزی نہیں کی ہے بلکہ سب کے ساتھ ان کا رویہ اچھا ہے۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان سمیت پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کیا ہے۔ کرنل (ر) عبیداللہ بیگ کے مطابق مسلح شدت پسند گروہ نے حکومت کے سامنے دو مطالبات پیش کیے ہیں جس میں پہلا مطالبہ گلگت اور ہری پور جیل میں قید اپنے چھ قیدیوں کی رہائی ہے اور دوسرا گلگت بلتستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور خواتین کی کھلیوں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنا ہے۔
ضلع دیامر اور چلاس کے مقامی لوگوں کے مطابق شدت پسند گروہ خود کو ’مجاہدین گلگت و بلتستان‘ کہلانا پسند کرتا ہے۔ یہ گروہ کچھ عرصے سے فعال ہے اور اس پر گلگت بلتستان میں ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات کا الزام ہے جن میں سنہ 2013 میں نانگا پربت پر غیر ملکی کوہ پیماؤں کا قتلِ عام، چلاس میں پولیس اہلکاروں کا قتل اور دیگر وارداتیں شامل ہیں۔ حالیہ پیش رفت میں جن لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ سب لوگ نانگا پربت واقعے سمیت دہشت گردی کے دیگر واقعات میں الزامات ثابت ہونے پر گلگت اور ہری پور جیل میں مختلف سزائیں کاٹ رہے ہیں۔