خواتین جو اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے سیاست کا سہارہ لیتی ہیں، تحریکِ پاکستان سے لے کر آج تک پاکستانی سیاسی خواتین کسی نہ کسی صورت اس میں مصروف نظر آئی ہیں۔ اور اس میدان میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران خواتین کی شمولیت خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جہاں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی قائداعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں۔ ان کی قیادت اور سیاسی بصیرت نے نہ صرف تحریک کو مضبوط کیا بلکہ خواتین کے لئے سیاسی کردار کے دروازے بھی کھولے، جو آج تک مختلف انداز میں جاری ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ملکی سیاست میں خواتین کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کی آمریت کا بھرپور مقابلہ کیا اور خواتین کی سیاسی جدوجہد کو ایک نئی پہچان دی۔ اسی طرح امجدی بیگم، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، رعنا لیاقت علی خان، اور فاطمہ صغریٰ سمیت ہزاروں خواتین نے تحریکِ پاکستان کے دوران اپنی زندگیاں قربانیاں اور جدوجہد کے لیے وقف کیں۔ بعد ازاں، محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی سیاسی خدمات بھی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ بے نظیر بھٹو نہ صرف مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں بلکہ اپنے والد کی سیاسی وراثت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان بھی قربان کر دی۔ ان خواتین کی جدوجہد آج بھی سیاست میں خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
پاکستانی خواتین نے نہ صرف سیاست بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی جدوجہد، جس میں انہوں نے میاں محمد نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا، تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آج مریم نواز اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قیادت کے جوہر دکھا رہی ہیں۔ اسی طرح آصفہ بھٹو زرداری اور دیگر کئی خواتین سیاست کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اسی طرح
ڈاکٹر یاسمین راشد، جو عمر کے اس حصے میں بھی اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے جیل میں ہیں، ان خواتین میں شامل ہیں جو اپنی جماعتوں سے وفاداری اور ملکی سیاست میں مؤثر کردار کے لیے جانی جاتی ہیں۔ اگر موجودہ دور کی بات کی جائے تو آج بھی کئی بہادر خواتین اپنی سیاسی جماعتوں کے لیے قربانیاں دے رہی ہیں اور جیل کی سختیاں برداشت کر رہی ہیں۔ ان ہی خواتین میں صنم جاوید کا نام بھی نمایاں ہے، جو اپنے حوصلے اور عزم کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔
سیاست کے ساتھ ساتھ خواتین نے صحت، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت، اور صنعت سمیت ہر میدان میں مثالی خدمات انجام دی ہیں۔ پاکستان خوش قسمت ہے کہ یہاں خواتین نے ہمیشہ ناگفتہ بہ حالات میں بھی خود کو منوایا اور جمہوریت کی بقا کے لیے آہنی دیوار بن کر کھڑی رہیں۔ یہ خواتین نہ صرف ہماری تاریخ کا فخر ہیں بلکہ نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ بھی ہیں۔
سیاست میں خواتین کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے، لیکن تحریکِ پاکستان سے لے کر آج تک خواتین کو اس میدان میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خواتین کی کردار کشی کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ روایت ابتدا سے ہی قائم کر دی گئی تاکہ انہیں خوفزدہ کر کے سیاست اور دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے مظاہرے سے روکا جا سکے۔
مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے 1965ء میں جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابات لڑنے کا جمہوری فیصلہ کیا، کیونکہ وہ سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف تھیں۔ لیکن اس جرات کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی، اور انہیں کردار کشی کا نشانہ بنا کر ’مغربی ایجنٹ‘ جیسے القابات سے نوازا گیا۔ اسی طرح، اگر پختون خواتین رہنماؤں کی بات کی جائے تو بیگم نسیم ولی خان کی جدوجہد ایک روشن مثال ہے۔ وہ اپنے شوہر خان عبدالولی خان کے شانہ بشانہ آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوئیں۔ ایک ایسے وقت میں جب پختون خواتین کے لیے سیاست میں حصہ لینے کا تصور بھی محال تھا، انہوں نے اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں پارٹی کی قیادت سنبھالی اور سیاست میں اپنی بصیرت اور قیادت کا لوہا منوایا۔ ان خواتین کی قربانیاں آج بھی سیاست میں آنے والی خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
بیگم نصرت بھٹو کا نام پاکستانی سیاست میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد 1977ء میں انہوں نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور آمریت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ مظاہروں کے دوران ان پر سرِعام لاٹھیاں برسائی گئیں، اور انہیں ’غدار‘ اور ’بدچلن عورت‘ جیسے القابات سے نوازا گیا، لیکن وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ نصرت بھٹو نے جمہوریت کی خاطر اپنے خاندان کے افراد کو سیاست میں قربان کر دیا، اور یہ اعزاز انہیں منفرد مقام عطا کرتا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو بھی پاکستانی سیاست کا ایک روشن باب ہیں۔ 1988ء میں وہ نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں اور تاریخ رقم کی۔ تاہم، انہیں سیاست میں قدم رکھنے سے لے کر کامیابی تک بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ کردار کشی کے لیے ان کی جعلی اور غیر اخلاقی تصاویر بنائی گئیں، جھوٹے کیسز میں پھنسایا گیا، اور پرویز مشرف کے دورِ آمریت میں انہیں جلاوطنی پر مجبور ہونا پڑا۔ میثاقِ جمہوریت کے نتیجے میں وطن واپسی پر ان کی زندگی ایک خودکش دھماکے میں ختم کر دی گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جدوجہد اور قربانی آج بھی جمہوریت پسندوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔
بیگم کلثوم نواز پاکستانی سیاست میں ایک باوقار اور باہمت شخصیت کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔ اگرچہ وہ سیاست میں براہِ راست سرگرم نہیں تھیں، لیکن جب پرویز مشرف نے نواز شریف کو حکومت سے برطرف کیا تو کلثوم نواز نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ اس کے بارے میں بھی کافی پروپیگنڈے کئے گئے تھے اور یہاں تک کہ ان کے انتقال کے وقت بھی گھٹیا پروپیگنڈا کیا گیا۔
ان کی بیٹی مریم نواز نے اپنی والدہ کی جدوجہد اور اپنے والد کے بیانیے کو آگے بڑھاتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا اور اسے ایک نئی تحریک میں بدل دیا۔ ان کی پُرجوش تقاریر نے عوام میں ان کی مقبولیت کو مزید بڑھا دیا۔ تاہم، مریم نواز کو بھی انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن کا شکار دیگر خواتین سیاستدان ہو چکی ہیں۔ ان پر جھوٹے کیسز بنائے گئے، کردار کشی کی گئی، اور انہیں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ اس کے باوجود مریم نواز نے اپنے عزم و حوصلے سے ثابت کیا کہ وہ مشکلات کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔
سیاست میں خواتین کا کردار بے حد اہم ہے، کیونکہ ان کی شمولیت کے بغیر ہماری سیاسی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں خواتین کو سیاست میں حصہ لینے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے آج بھی کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ سیاسی جماعتوں کے اندر اور معاشرتی سطح پر نسلی تعصب، ہراسانی، اور تشدد جیسی رکاوٹوں سے نبرد آزما ہیں۔
اس کے باوجود، جب خواتین تعلیم حاصل کر کے سیاست اور دیگر شعبوں میں اپنی شناخت بنا رہی ہیں، تو یہ بلا شبہ حوصلہ افزا اور قابلِ تحسین بات ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری سیاسی جماعتیں خواتین کو وہ مقام اور وہ سیٹیں نہیں دیتی جو مردوں کو دی جاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اکثر الزامات عورتوں پر ہی لگتے ہیں، اور مرد اسی وقت ایسی چالاکیاں کرتے ہیں جب انہیں خواتین کی صلاحیتوں سے خوف محسوس ہوتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ خواتین کو سیاست میں مکمل طور پر شامل ہونے کے برابر مواقع ملیں تاکہ وہ حکومت میں اپنے حقوق کی نمائندگی کر سکیں۔ خواتین سیاستدان ہی اس ملک میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کو قانونی اصلاحات کے ذریعے ختم کر سکتی ہیں اور انہیں ان کے حقوق دلا سکتی ہیں۔