ہم این آر او نہیں دےسکتےاورکوئی توقع نہیں کرےکہ ہم مقدمات روک لیں گے.فواد چوہدری

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہناہے کہ ہم این آر او نہیں دے سکتے اور کوئی توقع نہیں کرے کہ ہم مقدمات روک لیں گے یا اس سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وزیراعظم کے دورۂ چین پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چین ہمیشہ پاکستان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوا ، چین کے ساتھ تعلقات اہمیت کے حامل ہے، وزیراعظم کے دورے کو بہت اہمیت ملی ہے اور سعودی عرب کی طرح یہ دورہ بھی کامیاب رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان مقامی کرنسی میں تجارت کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیں 15 بلین ڈالر کی تجارت پر ڈالر میں رقم دینا ہوتیتو ہمارے زرمباردلہ پر دباؤ آتا ہے، یوآن میں کاروبار کرنے سے ہمارے ڈالر کو کوریج ملے گی، یہ کرنسی سپورٹ کا حصہ ہے، چائنا کے اکنامک پیکج پر اسد عمر اور خسرو بختیار واپس آکر مزید تفصیلات بتائیں گے۔

وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ سی پیک کی ہم یہاں بھی تعریف کرتے ہیں اور چین میں بھی کی، ن لیگ والے ہر چیز اپنے خاندان پر لے جاتے ہیں، شکر ہے یہ نہیں کہاکہ میاں شریف کی وجہ سے چین سے تعلقات ہیں، ملکوں کے تعلقات شخصیات پر نہیں ہوتے، ایک دوسرے کے مفادات پر ہوتے ہیں، پاکستان کے عالمی برداری سے تعلقات گزشتہ دور حکومت سے زیادہ اچھے ہیں، مشرق وسطیٰ کے مسائل پر عمران خان بحیثیت وزیراعظم جو کردار ادا کررہے ہیں یہ ایک تاریخی بات ہے، پاکستان کو اس پر فخر ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کے دور میں پاکستان کا ایک عالمی مقام بنا تھا، بہت عرصے بعد عمران خان کی صورت میں ایسی لیڈر شپ ملی جس پر اسلامی دنیا کو اعتماد ہے، اسلامی دنیا اپنے مسائل کے حل کے لیے عمران خان کی طرف دیکھ رہی ہے، یمن کےمعاملے پر بات چیت آگے بڑھی ہے، فریقین کو شامل کیا ہے، اس حوالے سے مضبوط حکمت عملی سامنے آئے گی، مسلم امہ کے تنازعات کو ختم کرنا ہماری خارجہ پالیسی کا مقصدہے۔

وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر ہمیں بہت بڑی سفارتی کامیابی ملی ہے، وزیراعظم عاشق رسولؐ ہیں، وہ مدینہ میں جوتوں کے ساتھ نہیں اترے، ہمیں کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں، ہمارا ماڈل مدینہ کی ریاست ہے، اقلیتوں اور شہریوں کو حقوق دیں گے، حکومت نے سب کو حکم دیا ہےکہ انہیں آج رات تک املاک کو نقصان پہنچانے والوں کی تفصیلات اور شرپسند عناصر کا تعین کرکے ڈیٹا دیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ دھرنے پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو اٹھانے کے دوطریقے تھے، اگر فورس بھیج دیتے تو کہا جاتاہےکہ حکومت نے زیادتی کی، ہمیں شہر کھلوانا تھے، کریڈٹ دینا چاہیے دانشمندی کے ساتھ بحران کو ختم کردیا، ہم معاملات حل کرنا چاہتے ہیں، دھرنے کے مسائل کو حل کرنا پڑے گا یہ نہیں ہوسکتا دو تین ہزار لوگ شہر بند کردیں۔

ان کا کہنا تھاکہ دھرنوں کے دنوں میں اپوزیشن کے تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہیں، مظاہرین نے بچے کے پھل تک چوری کرلیے، اس سے مظاہرین کے اخلاقی زوال کا اندازہ لگاسکتے ہیں، خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور گاڑیوں کو آگ لگائی گئی، ان لوگوں نے مذہب کا لبادہ اوڑھا، جن لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوئی انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ان کا مداوا کریں گے۔

سوشل میڈیا سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیس بک کے ساتھ حکومت کا تعلق ہے، اس سارے معاملے میں فیس بک نے ہماری درخواست پر ایکشن کیا، ٹوئٹر سے مسئلہ آرہا ہے، ہم سوشل میڈیا کو بین کرنے کے چکر میں نہیں ہیں لیکن فتوے لگانا اور مذہبی منافرت پھیلانے پر خیال کریں اور تعاون کریں۔

فواد چوہدری نے پاکستانی خلائی مشن پر بات کرتے ہوئے سیاستدانوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔

انہوں نےکہا کہ ہماری سیاست میں بھی کچھ لوگ ہیں جو زمین پر فساد پھیلا رہے ہیں انہیں خلا میں بھیج دیں اور واپسی کا راستہ نہ چھوڑیں تو ہماری بچت ہوجائے گی۔

وزیراطلاعات نےایک بارپھراین آراوسےمتعلق کہاکہ اپوزیشن سےہمارا جھگڑاصرف ایک ہے،اپوزیشن کہتی ہےاین آراو،اور ہم کہتے ہیں نہ رو،ہم این آراو نہیں دے سکتے،کوئی توقع نہ کرےکہ ہم مقدمات روک لیں گےیاان سےپیچھےہٹ جائیں گےاس کےعلاوہ اپوزیشن سے مسئلہ نہیں اوراے پی سی اسی لیے ہورہی ہے،ان کو ایک مسئلہ ہےہمارے خلاف کیسز نہ سنے جائیں،یہ پاکستان کاپیسہ ہےوہ واپس کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں احتساب کےنام پر سیاست کی، احتساب کو انتقام اور سیاسی عزائم کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے، عمران کی قیادت میں ایسا شخص آیا ہے جسے کوئی رعایت نہیں چاہیے، وہ ایک روپے کے روادار نہیں اور ان کے بچوں کے بھی کوئی مسئلے نہیں، انہیں نہ کوئی رعایت دینی ہے نہ لینی ہے۔

میڈیا انڈسٹری کے مسائل پر بات کرتے ہوئے وزیراطلاعات نے کہاکہ پچھلے دور میں میڈیا کو ایک مہینے میں سوا ارب کے بھی اشتہارات دیئے گئے، غریب ملک میں جہاں لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں وہاں حکومت اپنی شکلوں پر مبنی اشتہار کیسے دے سکتی؟ ایسا نہیں کہ حکومت اشتہار نہیں دے رہی، میڈیا مالکان سے کہا ہے کہ قلیل مدت میں انہیں سپورٹ کریں گے، ہم نہیں چاہتے لوگ بیروزگار ہوں، حکومت کے 20 فیصد اشتہارات پر میڈیا ہے، 80 فیصد پرائیوٹ ہے، 20 فیصد کی وجہ سے لوگوں کو نہیں نکالا جاتا۔

انہوں نےکہا کہ میڈیا کو اپنا بزنس ماڈل بہتر کرنےکی ضرورت ہے،اپنا آرگنائزیشن اسٹرکچر درست کریں، اینکرز اور رپورٹرز کے درمیان جتنا فرق ہے اس میں بزنس ماڈل بہتر کریں، ہم صحافتی تنظیموں کے ساتھ کھڑے ہیں، جتنے لوگوں کو نکالا گیا یہ ایک دو اینکر کی تنخواہیں ہیں، ہمارا جتنا تعاون ہوگا کریں گے لیکن اشتہار کو بطور رشوت استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں اور ن لیگ نے یہی کیا۔

Comments (0)
Add Comment