خیبر پختونخوا میں گزشتہ چند سال میں پولیو ڈیوٹی پر مامور ایک سو نو اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا

پشاور (سید زاہد عثمان) خیبر پختونخوا میں گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران پولیو ڈیوٹی پر مامور پولیس اور محکمہ صحت کے ایک سو نو اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے،جس میں چھتیس لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ،نشانہ بننے والوں میں نو خواتین بھی شامل ہیں۔

پوری دنیا کے ایک سو چوبیس ممالک میں سے صرف دو ممالک پاکستان اور افغانستان آج بھی پولیو سے متاثر ہیں،رواں سال کے دوران ابتک پاکستان سے پولیو کے چھ مصدقہ کیس سامنے آئے ہیں ،جسمیں پانچ بلوچستان اور ایک صوبہ سندھ سے رپورٹ ہوا ہے،بلوچستان میں قلعہ عبداللہ سے دو،ڈیرہ بگٹی،کوئیٹہ اور چمن سے ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے،تاہم ابتک رپورٹ ہونے والے کیسسز میں خیبر پختونخوا کا کوئی ذکر نہیں ای او سی کی جانب سے امید بھی ظاہر کی جارہی ہے کہ سال کے ختم ہونے تک پختونخوا سے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوگا ،مگر انکاری والدین کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہوگا یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، ہر سال پولیو کو ختم کرنے کاٹارگٹ رکھا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے یہ ٹارگٹ پورا نہیں ہوتا جسکی وجہ نئے کیسز کا سامنے آنا ہے،اسکی ایک بڑی وجہ بھی پولیو سے بچاوکے قطرے اپنے بچوں کو پلانے سے انکار ہے۔

گزشتہ پولیو مہم کے دوران صرف پشارو میں چھ ہزار آٹھ سو پنتیس والدین سے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاوکے قطرے پلانے سے انکار کیا ہے،اسی طرح ایک بہت بڑا مسئلہ ہر دفعہ بچہ موجود نہیں کی شکل میں سامنے آرہا ہے جسکی تعداد اسکے دوگنا سے بھی زیادہ ہے،اسی مظہر کو پولیو والے دستیاب نہیں کی کیٹگری میں ڈالتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ بھی پولیو سے انکاری والدین کا ایک حربہ ہے،ایمرجنسی اپریشن سنٹرکی ریکارڈ کے مطابق گزشتہ پولیو مہم کے دوران چودہ ہزار دو سو بائیس بچے دستیاب نہیں کی درجہ بندی میں ڈالے گئے تھے ،پٌولیو کے قطرے محفوظ ہیں یا غیر محفوظ اس موضوع پر میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر اعجاز خان کہتے ہیں کہ پولیو سے بچاو کے قطرے غیر محفوظ ہیں یا اس سے خدانخواستہ کوئی جنسی مسائل بنتے ہیں یہ ساری باتیں افواہیں ہیں اسی بنا پر اپنے بچو کو ہمیشہ کے لئے معذور کرنے کے راستے پر ڈالنا افسوسناک ہونے کے ساتھ ایک المیہ ہے،ڈاکٹر اعجاز کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس سے کوئی جنسی مسائل پیدا ہوتے تو ہمارے صوبے او ملک کی ابادی اسی تیزی کے ساتھ نابڑھتی،پولیو وائرس میں جو خطرناک بات ہے وہ یہ ہے کہ پولیو وائرس پانی کے ساتھ ملتا ہے دوسرا مسئلہ یہ ہے پولیو کے شکار بچوں کے پاخانہ سے پولیو وائرس گٹر کے راستے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے جو کہ صحت مند بچوں کے لئے بھی خطرے کا پاعث بنتا ہے،انیس سو اٹھاسی سے ابتک ایک سو بائیس ممالک میں پولیو کا خاتمہ کیسے ممکن ہوا پاکستان اور افغانستان میں کیوں نہیں ہو رہا۔

اس حوالے سے ایمرجسنی آپریشن سنٹر کی کمیونیکیشن آفیسر شاداب یونس سے خصوصی بات چیت پر انکا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کا مسئلہ بارڈر کی دونوں جانب نقل وحرکت ہے اور ریفیوزل کا مسئلہ ہی اسکی بڑی وجہ ہے جسکی وجہ سے آجتک کامیابی نہیں مل سکی،ہم نے اس مرتبہ دوہزار چوبیس کاٹارگٹ رکھا ہے جو ہر سال رکھا جاتا ہے اسکا مقصد پولیو کو جڑ سے اکھاڑنے کا ہے کیونکہ ہمارا پروگرام پولیو کنٹرول کرنا نہیں بلکہ اسکا خاتمہ ہے، مگر اسکے لئے سوفیصد بچوں تک رسائی کا ہدف حاصل کرنا ہوگا جسمیں فلحال کافی مشکلات کا سامنا ہے،امید ہے بہت جلد ہم اپنے ہدف کو حاصل کرکے پولیو کو بھی ختم کرپائینگے،انکا کہنا تھا جہاں تک پشاور کی بات ہے یہاں پر تین مختلف سائیٹس ہیں کسمیں نرٰ خوڑ،لڑمہ اور شاہین مسلم ٹاون شامل ہیں اسکے ماحول کا بار بار معائنیہ ہوتا ہے مگر ہوا میں پولیو وائرس موجود ہے،اسکے علاوہ جنوبی اضلاع سے کوہاٹ ڈی آئی خان اور باقی علاقوں میں بھی پولیو وائرس کی موجودگی کے ثبوت لگاتار معائنے کے ذریعے سامنے آرہے ہیں،گو کہ پختونخؤا سے ابتک پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا لیکن ہم اس بارے میں وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ دو ہزار چوبیس محفوظ سال ہوگا،پولیو وائرس ہزاروں بچوں میں سے کسی ایک کمزور کو نشانہ بناتا ہے جب تک ماحول میں وائرس موجود رہیگا خطرہ برقرار رہیگا، ایمرجنسی اپریشن سنٹر ای او سی کے ترجمان کے مطابق یہ تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے جو ہمارے لئے ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے،اگر ہم پشاور کی بات کریں تو پشاور میں رہائش پذیر "سلفی یا اہل حدیث” سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے پلانے سے ناصرف انکار کیا ہے بلکہ اس حوالے سے ایک فتویٰ جاری کیا ہے،کہ جو بندہ اپنے بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے پلائیگا اسکے ساتھ تعلقات ختم کئے جائیں گے یعنی اسکا سوشل بائیکاٹ کیا جائیگا،ایمرجنسی آپریشن سنٹر اور محکمہ صحت حکام نے ان سے بار بار مذاکرات بھی کئے ہیں مگر ابتک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے،اسکے علاوہ بھی صوبے کے مختلف علاقوں میں کافی مسائل ہیں بعض اوقات سیکورٹی صورتحال کی وجہ سے پولیو مہم متاثر ہوتی ہے توکہیں خراب حالات کے پیش نظر چھپ چھپ کے پولیو مہم چلانا پڑتی ہے،موزوں حالات میسر نہ آنے کے پیش نظر مسائل موجود ہیں جسکا ہم مقابلہ کررہے ہیں مگر زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کا ساتھ ہوگا تب اس وائرس کاخاتمہ ہوگا اور ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگا۔

شاداب یونس کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیو کے حوالے سے ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اس سے صرف معذوری ہوتی ہے جو کہ سراسر غلط ہے،پولیو وائرس سے متاثرٰ بچے کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے معذوری تو لازمی ہے،ایمرجنسی آپریشن سنٹر ریکارڈ کے مطابق اس کھٹن سفر کے دوران خیبر پپختونخوا میں محض گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران ابتک ایک سو نو افراد پولیو مہم کے دوران مختلف واقعات میں شر پسندوں کی جانب سے نشانہ بن چکے ہیں،اعداد وشمار کے مطابق دو ہزار بیس میں مجموعی طور پر چھ اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی جسمیں تین اہلکار شہید اور تین زخمی ہوئے،زخمیوں اور شہداء میں دو خواتین پولیو ورکرز بھی شامل ہیں،اسی طرح دو ہزار اکیس میں مجموعی طور پر اٹھارہ افراد نشانہ بنے جسمیں چھ شہید گیارہ زخمی اور ایک اغواء ہوا،شہداء اور زخمیوں میں تین خواتین پولیو ورکرز شامل تھیں،اسی طرح سال دو ہزار بائیس میں پولیو مہم کے دوران انیس افراد کو نشانہ بنایا گیا جسمیں سات شہید،بارہ زخمی اور ایک مغوی شامل ہے شہید ہونے والوں میں ایک خاتون پولیو ورکر بھی شامل تھی،سال دو ہزار تئیس میں پولیو مہم کے وران ایک مرتبہ پھر بائیس آفراد کو نشانہ بنایا گیا جسمیں چھ شہداء،گیارہ زخمی اور پانچ مغوی شامل ہیں،دو ہزار تئیس میں بھی ایک خاتون پولیو ورکر کو نشانہ بنایا گیا،روان سال ابتک پولیو ڈیوٹی کے دوران ایکیاون پولیو ورکرز اور پولیس اہلکار نشانہ بن چکے ہیں جسمیں چودہ شہداء،سینتیس زخمی شامل ہیں ،شہید ہونے والوں میں ایک خاتون ٌپولیو ورکر بھی شامل ہے،گزشتہ پانچ سال میں پولیو مہم کے دوران سب سے پرتشدد سال دو ہزار چوبیس ہے جکے ختم ہونے میں اب بھی چھ ماہ باقی ہیں،

Comments (0)
Add Comment