جمعرات کے روز غیرملکی میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے وضاحت کی کہ آپریشن ‘عزمِ استحکام ‘کا فیصلہ جلد بازی میں نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ ایک ایسا ماحول بھی ہے، جہاں سیاسی جماعتیں اپنے مفاد کے لیے حکومتی فیصلوں کو ماننے سے انکاری ہیں۔
وزیر دفاع کا یہ بیان اسی روز سامنے آیا، جب مولانا فضل الرحمان نے خیبر پختونخوا میں سکیورٹی کی نازک صورتحال کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکام کو متنبہ کیا۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ فضل الرحمان نے کہا کہ حالات اس سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ مسلح افراد کی موجودگی کی وجہ سے پولیس بھی رات کو باہر نکلنے سے ڈرتی ہے۔ تاہم خواجہ آصف نے یقین دلایا کہ آپریشن کے بارے میں کسی بھی سیاسی جماعت کے تحفظات کو دور کیا جائے گا اور حکومت اس معاملے کو قومی اسمبلی میں پیش کرے گی تاکہ سوالات و جوابات کے ذریعے اراکین میں اعتماد پیدا کیا جا سکے اور شکوک و شبہات دور ہو سکیں۔
انٹرویو کے دوران پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت سے بڑھ کر کئی چیز نہیں ہے۔”
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرحد پر ٹھکانوں کو نشانہ بنانا ”بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہو گی، کیونکہ کابل پاکستان کو دہشت گردی ”برآمد” کر رہا ہے اور وہیں پر ”برآمد کنندگان” کو پناہ بھی دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گرچہ ٹی ٹی پی افغانستان سے کام کر رہی ہے، لیکن اس کے پیروکار جن کی تعداد تقریباً چند ہزار ہے، ”ملک کے اندر سے کام کر رہے ہیں۔” انہوں نے عمران خان کی حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ ان عسکریت پسندوں کو اسی دور میں ملک کے اندر واپس لایا گیا تھا۔
وزیر دفاع نے کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کے امکانات کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی، ”کوئی مشترکہ بنیاد ہی نہیں ہے، تو بات چیت کیسے ہو سکتی ہے۔” ایک مقامی ٹی وی چینل کے ساتھ بات چیت میں خواجہ آصف نے کہا کہ اسلام آباد اسمگل شدہ سامان کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے ”افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں پر بین الاقوامی قوانین کو سختی سے نافذ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔” افغانستان سے آنے والے تمام ٹریفک کو صرف درست پاسپورٹ اور ویزا کے ساتھ پاکستان میں داخلے کی اجازت ہو گی اور اس فیصلے کے نفاذ سے، ”دہشت گردوں کی دراندازی کو بھی ناکام بنانے میں مدد ملے گی۔”