پاکستان کا عدالتی نظام پچھلے ستر برس سے زیرِبحث رہا ہے اورپاکستان کا عام آدمی ہمیشہ سے اس نظام سے غیر مطمن نظر آتا ہے۔ پارلیمنٹ ہو یا خود اعلیٰ عدلیہ، سب نے نظام کی خرابیوں کی بات تو ہمیشہ کی ہے لیکن اس کو ٹھیک کرنے کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
پاکستان کے عوام آج بھی عدالتی نظام سے نالاں اور غیر مطمن ہیں۔ کے ٹو ٹی وی کے پروگرام احوالِ راولپنڈی اسلام آباد کے حالیہ پروگرام کا موضوع بھی یہی تھا۔ اس حوالے سے جب عام لوگوں سے رائے لی گئی تو عوام اس عدالتی نظام کے خلاف پھٹ پڑے۔ عوام کا کیا کہنا تھا آئیے دیکھتے ہیں:۔
کوئی بھی ریاستی ادارہو وہ عوام کے لیے ہوتا ہے نہ کہ عوام اداروں کے لیے ہوتے ہیں۔ پاکستان کا عدالتی نظام دنیا میں ایک سو تیسویں نمبر پر ہے اس سے ہماری عدلیہ کی کارکردگی عیاں ہے۔ غریب کے لئے سالوں کوٹ کچہریوں کے چکر ہیں اور اشرافیہ کے لئے اس ملک کی جوعدالتیں ہیں وہ رات 12 بجے بھی کھلتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ہمارے ملک کے جوڈیشری سسٹم کے اوپر۔
ایک صاحب کا کہنا تھا کہ انصاف تو خیر غریب آدمی کے لیے ہے ہی نہیں یہ امیر لوگوں کے لیے ہے اشرافیہ کے لیے ہے یہاں پہ انصاف صرف ان لوگوں کو ملتا ہے مگر غریب آدمی کے حصے میں صرف چکر ہی آتے ہیں سپریم کورٹ ہو یا سیشن ہو یا ہائی کورٹ ہو غریب آدمی کے حصے میں صرف چکر ہی آتے ہیں۔
ہماری عدالتیں فیصلے کر دیتی ہیں اور پھر اپنے ہی فیصلوں کو غلط بھی مان لیتی ہیں جس طرح ایک بہت بڑی مثال ہے ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل۔ بھٹوکو پھانسی چڑھایا گیا، پھر کہا کہ جی ہم سے بڑا غلط فیصلہ ہو گیا، اب کیا اس سے بھٹو واپس آ جائے گا۔
عام آدمی تو خیربڑی عدالتوں میں جا ہی نہیں سکتا، وہ توبس سیشن کورٹ سے جو فیصلہ آتا ہے اسی پر صبر کر لیتا ہے غریب آدمی اپنا انصاف اللہ پر چھوڑ کر خاموش ہو جاتا ہے۔ عوام کی رائے کے مطابق پاکستان کے عدالتی نظام کی ناکامی کی وجوہات کثیر جہتی اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں:
انصاف میں تاخیر: پاکستان میں عدلیہ کو درپیش سب سے اہم مسائل میں سے ایک مقدمات کے نمٹانے میں تاخیر ہے۔ مقدمات برسوں تک عدالتوں میں التوا کا شکار رہتے ہیں، جس سے قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کے لیے بے حد مایوسی اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں، خاص طور پر غریب جو طویل قانونی لڑائیوں کے متحمل نہیں ہوتے۔
انصاف تک رسائی کا فقدان: معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان انصاف تک رسائی میں تضاد ہے۔ امیر اور طاقتور کو اکثر قانونی نمائندگی تک بہتر رسائی حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنے رابطوں کے ذریعے نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں، جب کہ غریب ایک پیچیدہ اور بعض اوقات کرپٹ نظام میں جدوجہد کرتے ہیں۔
بدعنوانی اور رشوت: بدعنوانی عدلیہ کے اندر ایک وسیع مسئلہ بنی ہوئی ہے، جو فیصلوں کی غیر جانبداری اور دیانت کو متاثر کرتی ہے۔ رشوت ستانی اور بے جا اثر و رسوخ ٹرائلز اور فیصلوں کے انصاف پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو ختم کر سکتے ہیں۔
سیاسی مداخلت: پاکستان میں عدلیہ کو تاریخی طور پر سیاسی دباؤ اور مداخلت کا سامنا رہا ہے۔ یہ ججوں کی تقرریوں، عدلیہ کے اندر انتظامی فیصلوں، اور یہاں تک کہ ہائی پروفائل کیسز کے نتائج کو بھی متاثر کر سکتا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
فرسودہ قوانین اور طریقہ کار: پاکستان میں قانونی فریم ورک کو اکثر فرسودہ ہونے اور عصری معاشرتی ضروریات سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پیچیدہ اور قدیم قوانین، طریقہ کار کی نااہلیوں کے ساتھ، عدالتی عمل کی سستی میں معاون ہیں۔
ناکافی انفراسٹرکچر اور وسائل: پاکستان میں بہت سی عدالتوں میں موثر کام کرنے کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچے اور وسائل کی کمی ہے۔ زیادہ بوجھ والی عدالتیں، ناکافی سہولیات اور ناکافی عملہ تاخیر کو بڑھاتا ہے اور بروقت انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔
جوڈیشل ایکٹوازم بمقابلہ قانون سازی کا عمل: پاکستان میں عدالتی فعالیت کی حد پر بحث جاری ہے، جہاں عدلیہ بعض اوقات ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے قدم اٹھاتی ہے جن کا مثالی طور پر مقننہ کو نمٹنا چاہیے۔ اگرچہ یہ کچھ معاملات میں مثبت نتائج کا باعث بن سکتا ہے، لیکن یہ ایک وسیع تر گورننس کے مسئلے کی بھی عکاسی کرتا ہے جہاں قانون ساز اداروں کو غیر موثر یا سست عمل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
ان نظامی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی عدلیہ کے اندر شفافیت، احتساب اور کارکردگی کو بڑھانے کے لیے جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے اور اس بات کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے کہ انصاف تمام شہریوں کے لیے قابل رسائی ہو، چاہے ان کی سماجی یا معاشی حیثیت کچھ بھی ہو۔