وفاقی کابینہ اور پارلیمان سے منظور ہونے والے 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ متفقہ ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری تین سال کے لیے کی جائے گی، یہ تقرری تین سینئر ترین ججوں میں سے کی جائے گی اور حکومتی اور اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ اور سینیٹ پر مشتمل 12رکنی کمیٹی دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کا نام فائنل کر کے وزیراعظم کو بھیجے گی۔
پارلیمان سے منظور شدہ مسودے کے مطابق جے یو آئی کے سینیٹر کی جانب سے تجویز کردہ ترمیم میں کہا گیا تھا کہ سود کو جنوری 2028 تک ملک سے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
ترمیمی بل میں سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز سمیت چار اراکین پارلیمنٹ بھی ہوں گے، جن میں سے ایک سینٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام وزیر اعظم جبکہ ایک سینیٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف دیں گے۔
اس بل کے مطابق ججز کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان ہوں گے جن میں سے آٹھ کا تعلق قومی اسمبلی جبکہ چار کا تعلق سینیٹ سے ہو گا۔
بل کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیئر جج کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی بجائے تین نام اس پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے اور 12 رکنی کمیٹی ان ناموں میں سے ایک کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی سفارش کرے گی۔ جس کے بعد وزیر اعظم اس ضمن میں صدر کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کی سفارش کریں گے۔
سینیٹ سے منظور شدہ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت تین سال کے لیے ہو گی اور اگر کوئی چیف جسٹس اس عرصے کے لیے اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر یعنی 65 سال تک نہیں پہنچتا تو پھر بھی اسے بطور چیف جسٹس تین سال کی مدت پوری ہونے کے بعد ہی ریٹائر سمجھا جائے گا۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ہائیکورٹ کے کسی جج کی کارکردگی بہتر نہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل اس جج کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے وقت دے گی اور اگر مقررہ مدت سے مذکورہ جج اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بناتا تو پھر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی دیکھے گی جبکہ کونسل ججز کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے الگ سے بھی قواعد وضوابط تشکیل دے سکتی ہے۔
اس بل میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق موجود قانون 184 کی سب کلاز 3 میں ترمیم کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی معاملے میں نہ کوئی نوٹس لے سکتی ہے اور نہ ہی کسی بھی ادارے کو کوئی ڈائریکشن دے سکتی ہے۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی سپریم کورٹ کے ججز کی تین رکنی کمیٹی نوٹس لینے یا نہ لینے کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔
اس ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ سمجھے کہ کسی ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہور ہے تو وہ یہ مقدمہ کسی دوسری ہائیکورٹ میں بھی منتقل کر سکتی ہے۔
اسی طرح بل میں آئین کے آرٹیکل 199 کے کلاز 1 میں بھی ترمیم کی گئی ہے اور اب اسے شق 1 اے کہا گیا ہے جو ہائی کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق ہے۔
اس ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کسی بھی معاملے پر نہ کوئی از خود نوٹس لے سکتی ہے اور نہ کسی ادارے کو کوئی ہدایت دے سکتی ہے۔
اسی طرح آئین کے آرٹیکل 203 ڈی میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی ایپل کو متعلقہ اعلیٰ عدالت 12 ماہ کے اندر نمٹانے کی پابند ہے۔
آئینی ترمیم میں آئین کی آرٹیکل 191 اے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ آرٹیکل آئینی بینچوں کی تشکیل سے متعلق ہے۔
اس بل کے مطابق آئینی بینچوں کی تعداد اور ان کی مدت کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کمیشن کرے گی۔ جوڈیشل کمیشن ان آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنائے گا۔
بل میں کہا گیا کہ اس آئینی بینچ کے پاس موجود اختیارات کسی دوسرے بینچ کو تفویض نہیں کیے جا سکتے۔
اس ترمیم میں یہ بھی کہا گیا کہ ججز کی تعیناتی سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی کارروائی ان کیمرا ہو گی تاہم اس ریکارڈ رکھا جائے گا۔