حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں اور مذاکرات کا پہلا دور بھی ختم ہو گیا ، اس سلسلے میں حکومت کے 7 اور پی ٹی آئی کے 3 ارکان اجلاس میں شریک ہوئے ۔
اسلام آباد: سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں شرکت کے لیے تحریک انصاف کے 3 رہنما پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے جبکہ حکومتی اتحاد کی جانب سے سینئر رہنما بھی مذاکرات میں شریک تھے ۔
جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کی پہلی نشست سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہوئی ،اپوزیشن کمیٹی نے مطالبات کا پہلا خاکہ پیش کیا ۔
حکومتی کمیٹی میں سپیکر ایاز صادق، عرفان صدیقی، اسحاق ڈار، رانا ثنا اللہ ،عبدالعلیم خان، راجہ پرویز اشرف، نویز قمر، اور فاروق ستار شامل تھے ،جبکہ اپوزیشن کمیٹی میں اسد قیصر، راجہ ناصر عباس اور حامد رضا شامل تھے ۔
اعلامیے کے مطابق کمیٹیوں نے مذاکراتی عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا اسدقیصر نے بتایا باقی اراکین عدالتی مقدمات اور بیرون ملک ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے ۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں مذاکراتی کمیٹیوں نے خیر سگالی کا اظہار کیا،مذاکراتی کمیٹیوں نے اجلاس کو نہایت مثبت پیشرفت قرار دیا ،کمیٹیوں نے توقع ظاہر کی کہ پارلیمنٹ مسائل حل کرنے کا اہم فورم ہے ۔
کمیٹیوں نے مذاکراتی عمل جاری رہنے کی توقع ظاہر کی ،اگلے اجلاس میں اپوزیشن کمیٹی تحریری مطالبات اور شرائط پیش کرے گی ۔
مطالبات اور شرائط کی روشنی میں مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے گا ، اگلا اجلاس 2 جنوری کو ہوگا ،اپوزیشن چارٹر آف ڈیمانڈ بھی پیش کرے گی ۔
مذاکرات کی پہلی نشست سے خطاب میں سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ مسائل کو مذاکرات سے حل کرنے کے حوالے سے وزیراعظم کا اقدام خوش آئند ہے، نیک نیتی سے حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی ہے، بات چیت اور مکالمے سے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے، مذاکرات کا عمل آگے بڑھانے کے لیے مذاکراتی کمیٹی کو کھلے دل سے آگے بڑھنا ہوگا ۔
انہوں نے کہا کہ سپیکر سیکرٹریٹ کمیٹی کی ہر طرح کی معاونت کرے گا، حکومت اوراپوزیشن کا کام ہے انہیں کرنے دیں، میری کوشش ہوگی کہ نیوٹرل رہ کر سہولت فراہم کروں اور باقی جو اِن کی مرضی ہوگی ، پاکستان کی خاطر کی سارے ڈائیلاگ کی بات ہورہی ہے ،کوشش ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں اور ملک میں سیاسی استحکام آئے ۔
ایاز صادق کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی تک رسائی دینا میرا کام نہیں ہے، مذاکرات کی کامیابی حکومتی اور اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹی پر منحصر ہے، مذاکرات کا عمل نیک شگون ہے اور یہ عمل جمہوریت کا حسن ہے ۔