پاکستان میں توانائی کا بحران روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بجلی کی آسمان چھوتی قیمتیں، 200 یونٹس سے زائد استعمال کرنے والے رہائشی صارفین پر نان پروٹیکٹڈ نرخوں کا نفاذ، اور درآمدی ایندھن پر بڑھتا ہوا انحصار ایک ایسا سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو نہ صرف روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے بلکہ صنعتی ترقی کو بھی مفلوج کر چکا ہے۔ اس گھمبیر صورتحال میں، شمسی توانائی ایک پائیدار، سستی، اور ماحول دوست متبادل کے طور پر ابھرتی ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے، پاکستان دنیا کے ان خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں سال کے بیشتر دن سورج پوری آب و تاب سے چمکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے، اس قدرتی نعمت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے، حکومت کی غیر مستحکم اور متضاد پالیسیاں شمسی توانائی کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کر رہی ہیں۔
مالی سال 2025-26 کے وفاقی بجٹ نے شمسی توانائی کی صنعت کو ایک دھچکا دیا ہے، جب شمسی آلات پر دی گئی مکمل سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔ یہ اہم آلات، جو کبھی سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے شیڈول 6 کی انٹری 164 کے تحت مکمل طور پر مستثنیٰ تھے، اب شیڈول 8 کی انٹری 90 کے تحت 10 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے تابع کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، کمرشل امپورٹرز کو درآمدات پر 3 فیصد اضافی ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا، اور اگر وہ کسی ایسے کاروباری شخص کو سامان فروخت کرتے ہیں جو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہیں ہے، تو مزید 4 فیصد فردر ٹیکس بھی لاگو ہوگا۔
ٹیکسوں کا بوجھ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت بھی مختلف کٹوتیاں لاگو ہوں گی۔ ڈسٹری بیوٹرز کو سیکشن 236G کے تحت 0.1 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس دینا ہوگا، اور ریٹیلرز کو سیکشن 236H کے تحت 0.5 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ مزید برآں، جب کمرشل امپورٹر کو ان اشیاء کی خریداری پر ادائیگی کی جائے گی، تو ودہولڈنگ ایجنٹ کو سیکشن 153(1)(a) کے تحت انکم ٹیکس کاٹ کر ادائیگی کرنا لازم ہوگا، کیونکہ سیکشن 148 کے تحت ان درآمدات پر انکم ٹیکس ودہولڈ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ تمام ٹیکسز صارفین تک منتقل ہو جاتے ہیں کیونکہ امپورٹرز، ڈسٹری بیوٹرز اور ریٹیلرز اس اضافی بوجھ کو حتمی قیمت میں شامل کر دیتے ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حکومت نے ابتدا میں فنانس بل میں شمسی آلات پر 18 فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے کی تجویز دی تھی۔ اس سے مارکیٹ میں فوری طور پر اضطراب پیدا ہوا، قیمتیں بڑھ گئیں اور کئی سرمایہ کاروں نے اپنے اسٹاک روک لیے۔ بعد میں، پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مشاورت کے بعد فنانس ایکٹ میں یہ شرح کم کر کے 10 فیصد کر دی گئی، لیکن دیگر ٹیکسوں کے برقرار رہنے کی وجہ سے یہ کمی بڑی حد تک غیر مؤثر ثابت ہوئی۔
بلکہ مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں کیونکہ حکومت پہلے ہی گرین میٹرز اور رہائشی میٹرز پر 18 فیصد جی ایس ٹی وصول کر رہی ہے۔ کمرشل میٹرز پر نہ صرف یہی شرح نافذ ہے بلکہ اس کے ساتھ 5 فیصد ایکسٹرا ٹیکس اور 4 فیصد فردر ٹیکس بھی لاگو ہے، جس سے مجموعی سیلز ٹیکس حیران کن طور پر 27 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ، بجلی کے کمرشل بلوں پر سیکشن 235 کے تحت ایڈوانس انکم ٹیکس اور سیکشن 99A کے تحت ریٹیلرز سیلز ٹیکس بھی وصول کیا جا رہا ہے، جس کی قانونی حیثیت اب تک واضح نہیں ہے، اور جو عام صارفین کے لیے شدید مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔
یہ ساری صورتحال حکومت کے اپنے دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔ ایک طرف شمسی توانائی کے فروغ، سولرائزیشن کے عمل میں تیزی، اور سستے قرضوں کی فراہمی کی بات کی جاتی ہے، تو دوسری طرف بھاری ٹیکس عائد کر کے اسی شعبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ گرین انرجی کے لیے ایک جامع، مربوط اور طویل المدتی پالیسی نہ ہونے کے باعث، شمسی صنعت مسلسل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب پاکستان میں استعمال ہونے والے تقریباً 70 فیصد شمسی آلات درآمد کیے جاتے ہیں، تو ان پر اضافی ٹیکس کیوں لگائے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران بھی شمسی آلات پر 17 فیصد جی ایس ٹی عائد کیا گیا تھا، جسے موجودہ حکومت نے عوامی دباؤ پر واپس لے لیا تھا۔ اگرچہ اس وقت عارضی ریلیف ملا تھا، لیکن اب تقریباً وہی پالیسی نئے انداز میں دوبارہ نافذ کر دی گئی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شمسی توانائی کا شعبہ ایک مستقل اور قابلِ اعتماد پالیسی سے محروم ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حالیہ بجٹ میں مقامی سطح پر شمسی آلات کی تیاری کے لیے کسی قسم کی حکمتِ عملی شامل نہیں کی گئی۔ حالانکہ وزیراعظم نے کچھ عرصہ قبل کابینہ کے اجلاس میں مقامی مینوفیکچرنگ کے فروغ کے لیے واضح ہدایات دی تھیں۔ تاحال ان ہدایات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا، اور نہ ہی کوئی پالیسی سامنے آئی ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں درآمدی ایندھن پر انحصار معیشت کو کھوکھلا کر رہا ہے، شمسی توانائی ہی وہ واحد امید ہے جو ہمیں توانائی کے بحران، مہنگائی، اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے جیسے مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔ اگر حکومت واقعی خود انحصاری، توانائی کی قیمتوں میں کمی، اور معاشی استحکام کی خواہاں ہے، تو اسے فوری طور پر سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر، ایک شفاف، پائیدار، اور مؤثر پالیسی مرتب کرنی ہوگی۔ بصورت دیگر، شمسی توانائی ایک سنہری موقع ہونے کے باوجود عوام کی پہنچ سے ہمیشہ دور رہے گی، اور پاکستان توانائی کے بحران کی دلدل میں مزید دھنستا چلا جائے گا۔
ندا خان
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
ٹیکس کنسلٹنٹ، لاء کوڈ ایڈوائزرز
nidakhan@lawcodeadvisors.com