پاکستان کے دیہات اور دور افتادہ قصبوں سے ہزاروں ہنرمند اور غیر ہنرمند مزدور بہتر معاش کی تلاش میں بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا سے بڑی تعداد میں لوگ مشرق وسطیٰ کا رخ کرتے ہیں، جہاں روزگار کے مواقع مقامی سطح پر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ محنت کش اپنی سادہ لوحی اور کم تعلیم کی وجہ سے ویزا اور پاسپورٹ کے حصول میں شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، لیکن رہی سہی کسر ملکی و غیر ملکی ایئرلائنز نکال دیتی ہیں، جو ان کا بدترین استحصال کرتی ہیں۔
ایئرلائنز کا رویہ ان مسافروں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے۔ ٹکٹ کی پوری قیمت ادا کرنے کے باوجود سہولیات مقامی ٹرانسپورٹ یعنی مردان پشاور یا کراچی کے لوکل بسوں جیسی ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی ایئرلائنز یورپ اور امریکا جانے والے مسافروں کے ساتھ پیشہ ورانہ رویہ اپناتی ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات تو عملہ بھی بدل دیا جاتا ہے۔ یہ طبقاتی امتیاز ناقابل قبول ہے۔
پاکستان ایوی ایشن اتھارٹی کے 2024 کے اعدادوشمار کے مطابق، سالانہ لاکھوں پاکستانی مشرق وسطیٰ جاتے ہیں، جو زرمبادلہ کے طور پر اربوں روپے وطن واپس بھیجتے ہیں۔ 2023 میں پاکستانی تارکین وطن نے 27 ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات زر بھیجیں، جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اس کے باوجود ان محنت کشوں کو بنیادی عزت اور سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار ایئرلائنز کو پابند کریں کہ وہ تمام مسافروں کے ساتھ یکساں سلوک کریں۔
ایئرلائنز کے لائسنس کی تجدید کے وقت سخت شرائط عائد کی جائیں، تاکہ طبقاتی امتیاز ختم ہو اور سہولیات میں بہتری آئے۔ ان محنت کشوں کی عزت نفس کی پاسداری اور سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا نہ صرف انصاف کا تقاضہ ہے بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی ناگزیر ہے۔