پہلگام میں حالیہ مہلک حملے نے ایک بار پھر کشمیر پر بھارتی حکومت کی پالیسیوں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے 2014 سے کشمیر میں ’امن‘ اور ’ترقی‘ کا وعدہ کیا تھا، مگر یہ وعدے اب کاغذی دکھائی دے رہے ہیں۔
حالیہ حملے کو جموں و کشمیر میں حالیہ برسوں کا بدترین حملہ قرار دیا جا رہا ہے، اور اس کے بعد کئی حلقے حکومت کی کشمیر پالیسی پر سنجیدہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد خطے میں ترقی اور امن آئے گا، لیکن زمینی حقیقت اس دعوے کی تردید کرتی نظر آ رہی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف کنفلیکٹ مینجمنٹ کے ماہر ڈاکٹر اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ حکومت نے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کچھ نیا نہیں کیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، وہ صرف سکیورٹی اداروں کی مرہون منت ہیں، پالیسی سازوں کی نہیں۔
ڈاکٹر ساہنی کے مطابق سیاسی اقدامات یا مصالحتی کوششیں نظر نہیں آتیں۔ بلکہ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی بیانیہ پولرائزنگ ہے، جو فرقہ واریت کو ہوا دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کشمیری عوام کو انڈین شناخت میں حقیقی طور پر شامل نہیں کیا جاتا، امن کا خواب حقیقت میں نہیں بدلے گا۔
دوسری طرف کشمیری ماہرین، جیسے پروفیسر نور احمد بابا، حکومت کی پالیسی کو ایک "نقاب” قرار دیتے ہیں، جو مسئلے کی اصل جڑ کو چھپانے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔
یہ تمام سوالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ مودی حکومت اپنی کشمیر پالیسی پر ازسر نو غور کرے، ورنہ پہلگام جیسے واقعات دوبارہ ہونے کا خطرہ موجود رہے گا۔