پاکستان نے اپنی افغان پالیسی میں ایک بڑی اور انقلابی تبدیلی کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد نہ صرف کابل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے بلکہ پورے خطے میں پاکستان کا سفارتی اور اقتصادی کردار مزید مضبوط بنانا بھی ہے۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان نے اس نئی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان کا مؤقف زیادہ متوازن، حقیقت پسندانہ اور ہمسایہ دوستی پر مبنی ہوگا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ مہینوں میں کشیدگی دیکھنے میں آئی تھی، خاص طور پر سرحدی تنازعات اور سیکیورٹی الزامات کے حوالے سے، تاہم اب دونوں ممالک ایک نئے اعتماد کی فضا قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نئی پالیسی کے تحت دوطرفہ تجارت کو فروغ دیا جائے گا، افغان مہاجرین سے متعلق پالیسی میں نرمی آئے گی، اور سیکیورٹی تعاون میں بہتری کی کوششیں کی جائیں گی۔ اس پیش رفت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ چین، افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک نیا علاقائی اتحاد تیزی سے ابھر رہا ہے، جو بھارت کے لیے باعثِ تشویش بن چکا ہے۔
چین کی افغانستان میں سرمایہ کاری، پاکستان کی اقتصادی راہداریوں میں وسعت، اور کابل میں استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں نہ صرف خطے میں توازنِ طاقت کو تبدیل کر سکتی ہیں بلکہ وسط ایشیا تک رسائی میں بھی مددگار ثابت ہوں گی۔ بھارت کے لیے یہ تین ملکی اشتراک اسٹریٹیجک دباؤ کا سبب بن رہا ہے، کیونکہ یہ اتحاد اس کے علاقائی اثرورسوخ کو محدود کر سکتا ہے۔ پاکستان کی اس نئی افغان پالیسی کو بین الاقوامی برادری بھی دلچسپی سے دیکھ رہی ہے، خاص طور پر اس حوالے سے کہ کیا یہ پالیسی خطے میں مستقل امن اور اقتصادی ترقی کی راہیں ہموار کر پائے گی۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان نے ایک سفارتی چال چلی ہے جو اسے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے وسط ایشیائی خطے میں ایک کلیدی کھلاڑی کے طور پر سامنے لا سکتی ہے۔