تحریر: مبارک علی
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) نے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لیے اہلیت کے معیار کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے۔ اب میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے کم از کم 50 فیصد اور ڈینٹل کالجوں کے لیے 45 فیصد نمبروں کی ضرورت ہوگی، جبکہ پاسنگ مارکس 65 فیصد ہیں۔ یہ فیصلہ نہ صرف تعلیمی معیار کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ملک کے مجموعی صحت کے نظام پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گا۔
میڈیکل تعلیم ایک انتہائی حساس شعبہ ہے، جہاں نہ صرف ذہنی صلاحیت بلکہ پیشہ ورانہ مہارت اور ذمہ داری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز اور دانتوں کے ماہرین انسانی جانوں سے براہِ راست منسلک ہوتے ہیں۔ اگر داخلے کے معیار کو اس قدر کم کر دیا جائے گا تو اس سے نااہل اور کمزور صلاحیتوں کے حامل طلبہ کو میڈیکل شعبے میں داخلے کا موقع ملے گا۔ یہ نہ صرف تعلیمی معیار کو متاثر کرے گا بلکہ مستقبل میں مریضوں کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
میرٹ کا معیار کم کرنے سے تعلیمی اداروں میں مقابلے کی فضا ختم ہو جائے گی۔ جب طلبہ کو کم محنت سے داخلہ مل جائے گا تو وہ اپنی تعلیم کے دوران بھی اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اس سے نہ صرف میڈیکل کالجوں کی ساکھ متاثر ہوگی بلکہ پاکستانی ڈاکٹرز کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بھی کم ہو سکتی ہے۔ عالمی اداروں جیسے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) اور دیگر ممالک کے میڈیکل بورڈز پاکستانی ڈگریوں پر پہلے ہی سوالات اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کے فیصلے ان کی تشویش کو مزید بڑھائیں گے۔
صحت کا نظام کسی بھی ملک کی ترقی کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔ اگر ڈاکٹرز کی تربیت کا معیار گر جائے گا تو اس کے اثرات مریضوں کی دیکھ بھال، تشخیص، اور علاج کے معیار پر پڑیں گے۔ ناقص تعلیم یافتہ ڈاکٹرز کی وجہ سے طبی غلطیوںکا امکان بڑھ جائے گا، جو عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے گا۔
پی ایم ڈی سی کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے اور میرٹ کے معیار کو برقرار رکھے۔ داخلے کے معیار کو بڑھانے کے بجائے کم کرنے سے بہتر ہے کہ طلبہ کو تیاری کے لیے اضافی مواقع اور وسائل فراہم کیے جائیں، جیسے کہ تیاری کورسز یا سکالرشپس۔ میرٹ پر مبنی تعلیمی نظام ہی ایک مضبوط صحت کے نظام کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لیا جائے تاکہ ہمارے مستقبل کے ڈاکٹرز نہ صرف قابل ہوں بلکہ عالمی معیار کے مطابق بھی ہوں۔