یونیورسٹی آف ملاکنڈ کے شعبہ کمپیوٹر سائنس اینڈ آئی ٹی کے ایم فل سکالر ملک زبیر نے مصنوعی سپر انٹیلیجنس (ASI) کے باعث درپیش سائبر سیکیورٹی چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے عملی حل پیش کرتے ہوئے اپنے تحقیقی مقالے کا کامیاب دفاع کر لیا ہے ۔
ملک زبیر نے ڈاکٹر صفات اللہ خان کی زیر نگرانی اپنے تحقیقی مقالے میں ASI کے وجود سے لاحق خطرات، اگلی نسل کے سائبر حملے، ٹیسٹنگ اور گورننس ماڈلز کی عدم موجودگی، انسانی کنٹرول کے خاتمے، اور اخلاقی و قانونی چیلنجز جیسے پیچیدہ مسائل کو اجاگر کیا ۔
ان کا مؤقف ہے کہ موجودہ سائبر سیکیورٹی فریم ورک اتنی ترقی یافتہ مصنوعی ذہانت کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں، جس کے باعث دنیا کو ایک غیر متوقع ڈیجیٹل بحران کا سامنا ہو سکتا ہے ۔
اس موقع پر مقالے کے بیرونی ممتحن پروفیسر ڈاکٹر محمد نواز، انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز پشاور نے تحقیق کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کام نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کے تحفظ سے متعلق پالیسی سازی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔
اپنے مقالے میں ملک زبیر نے ASI کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے مختلف تجاویز پیش کیں، جن میں "کنسٹرینڈ آپٹیمائزیشن”، "ہیومن-اے آئی ایمپاورمنٹ” (HAIE) ماڈل، "ملٹی ایجنٹ ری انفورسمنٹ لرننگ” (MARL)، "کل سوئچز”، "اے آئی سینڈ باکسنگ”، اور اخلاقی و قانونی فریم ورک کی تشکیل شامل ہیں، تاکہ مصنوعی ذہانت کے نظاموں کو موثر طریقے سے ریگولیٹ کیا جا سکے ۔
تحقیقی مقالے کے کامیاب دفاع پر ملک زبیر نے اس کامیابی کو اللہ تعالیٰ کے فضل، والدین کی دعاؤں، اساتذہ کی محنت اور دوستوں کے تعاون کا نتیجہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے خطرات کے تناظر میں ان کی تحقیق پالیسی سازوں، سائبر سیکیورٹی ماہرین اور ریگولیٹری اداروں کے لیے ایک اہم حوالہ ثابت ہو سکتی ہے ۔