امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق دیں۔
طالبان کو تسلیم کرنا امریکہ کے لیے انتہائی تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ تاہم، ایک اعلان کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان کی قانونی حیثیت کا انحصار سماجی اور اقتصادی دونوں شعبوں میں خواتین کی مکمل شمولیت پر انحصار کرتا ہے۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے، امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان، ویدانت پٹیل نے اس بات پر زور دیا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کو مردوں کے برابر حقوق اور مواقع دئیے جانے چائیں۔
پٹیل نے کہا کہ اہم نقطہ نظر یہ ہے کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانا افغانستان پالیسی کا ایک اہم حصہ ہونا چائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ اگر وہ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دیتے اور اگر ان کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہیں تو انہیں کبھی بھی لیڈر کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ماہرین نے بھی پٹیل کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کا معاشرے اور معیشت میں مکمل طور پر شامل ہونا بہت ضروری ہے۔انہیں خدشہ ہے کہ اگر خواتین کو ان کے حقوق نہیں دئیے جاتے ہیں تو افغانستان کو جلد ہی بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہذا، ماہرین کے مطابق خواتین کو بھی مردوں کے برابر مواقع اور حقوق دینا ضروری ہے۔
یونیورسٹی کے ایک معزز اسکالر ذکی اللہ محمدی نے کہا کہ خواتین کو تعلیم، ملازمت اور آزادی کا پورا حق حاصل ہونا چاہیے اور طالبان کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ وہ یہ حقوق خواتین کو دے۔اسی طرح ایک اور تجربہ کار سیاسی تجزیہ کار، ناصر شفیق نے خواتین کو بنیادی حقوق دینے کے حوالے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں بہتری لانے کے لیے خواتین کو تعلیم اور ملازمت کے مواقع فراہم کرنے چائے کیونکہ خواتین معاشرے کا ایک اہم اور بنیادی حصہ ہیں۔اگرچہ اس سب صورتحال پر طالبان نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے تاہم انہوں نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اسلامی قانون پر عمل کرنے کا ذکر کیا ہے۔