خیبر نیوز کے پروگرام کراس ٹاک میں سینئت صحافی اور میزبان وقاص شاہ نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر خیبر پختونخوا کی عوام نے واضح اکثریت سے پاکستان تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا ہے۔
پہلی بار یہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں ہوا ہے کہ مسلسل ایک پارٹی کو تیسری بار حکومت دی گئی ہے۔کسی کو بھی اس سے پہلے دوسری دفعہ حکومت نہیں دی گئی ہے۔
پروگرام کراس ٹاک میں بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے نو منتخب ممبر صوبائی اسمبلی عارف احمد زئی نے کہا کہ بہت مشکل حالات میں ہم نے الیکشن لڑا ہے۔جھوٹے کیسز ہمارے اوپر بنائے گئے، ہم لوگوں کو تو کارنر میٹنگ، جلسے جلوس اور ریلیوں تک کی اجازت نہیں دی گئی تھی، اور ہم لوگ جب ریلی یا جلسے کا اعلان کرتے تو ہم پر دفعہ 114 لگا دیتے تھے۔ہمارے تیسرے درجے کی لیڈرشپ کو یا تو جیلوں میں ڈالا گیا ہے،یا رپورش کر دیا گیا ہے۔ہمارے اوپر تو یہاں تک پابندی تھی کہ ہمیں ہمارے ہی گرفتار رہنماوں سے ملنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ ہم اپنے ووٹر کو الیکشن والے دن ٹرانسپورٹ تک نہیں دے سکیں۔اس سب کچھ کے باوجود لیکن جس طرح ووٹر باہر نکلے ہیں اور ووٹ دیا ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ ووٹر نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے اور بتا دیا ہے کہ جتنی مرضی پابندی عائد کر دی جائے عوام اپنے حق کو صیح جگہ استعمال کرنا جانتی ہے۔ہم تھری ایم فی او کو ختم کرنے کیلئے آواز اٹھائیں گے۔
کراس ٹاک میں بات چیت کے دوران پی ٹی آئی کے نو منتخب ممبر صوبائی اسمبلی عبدالسلام نے کہا کہ ان کے اوپر 8 مقدمے درج ہیں۔ اور دہشتگردی کی دفعات بھی اس میں شامل ہیں۔ ہماری پارٹی سے انتخابی نشان بھی لیا گیا اور مجھے تو دو نشان الاٹ کئے گئے تھے اور آر او کے پاس بار بار درخواست دائر کرنے پر بھی ایک نشان کو واپس نہیں لیا گیا یہاں تک کہ مجھے ہائیکورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔
اس حوالے سے عارف احمد زئی نے کہا کہ ہمیں ہر قسم کا لالچ اور دھمکیاں دی گئی کہ ہم پی ٹی اٗئی کو چھوڑ دیں لیکن فیملی نے بھرپور سپورٹ کیا۔ہر قدم پر ساتھ دیا اور یہی کہتے تھے کہ سخت حالات میں پارٹی نہیں چھوڑنی ہے۔عبدالسلام نے اس پر کہا کہ میرے بیٹے اور بھائی نے مجھے عمران خان کو چھوڑنے کی صورت میں میرا چہرہ نہ دیکھنے کی دھمکی دی۔ اس ملک کو اللہ نےبہت سی معدنیات اور وسائل سے نواز ہے لیکن ہمیں وہ لیڈر شپ نہیں ملی جس کی وجہ ملک بہت سے مشکلات سے دوچار رہا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا لیکن حکومت بننے کے بعد سب سے پہلے صحت کارڈ کو بحال کریں گے، مرکز سے بجلی، گیس کی مد میں بقایاجات لینے کی بھرپور کوشش کریں گے اور صوبے کے حقوق کیلئے ہر حد تک جائیں گے۔ایگریکلچرل یونیورسٹی، صحت، تعلیم اور ٹورزم کے محکموں میں ترقیاتی کاموں اور اصلاحات کو فوقیت دیں گے۔ صوبے میں ڈیم بنائیں گے۔ اور یہ عمرا ن خان ہی تھے کہ جہنوں نے بجلی کی کمی دور کرنے کیلئے بڑے ڈیموں پر کام شروع کیا۔