اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہوگئی اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے جو منگل کو کسی بھی وقت سنایا جائے گا۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ میں آج سماعت کے موقع پر سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا اور سپریم کورٹ میں انہی افراد کو داخلے کی اجازت تھی جن کے مقدمات زیرسماعت تھے۔ سماعت کے آغاز سے قبل اٹارنی جنرل پاکستان کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مقدمہ نہ سنے۔ اٹارنی جنرل کی 7 صفحات پر مشتمل متفرق درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن ازخودنوٹس کیس نہ سننے والےججزپر مشتمل عدالتی بینچ بنایا جائے۔
سپریم کورٹ کا حکومتی اتحاد کے وکلا کو سننے سے انکار
سماعت شروع ہوئی توپاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آگئے اور استدعا کی کہ میں کچھ کہنا چاہتے ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کیس کا حصہ بن رہے ہیں؟ کیا آپ بائیکاٹ نہیں کر رہے تھے؟ وکیل پیپلز پارٹی فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ مشاورت کرکے ہمیں بتائیں، ہمیں تحریری طور پربتائیں، اگربائیکاٹ نہیں کیا تو بھی بتائیں، اخبارات میں آیا ہےکہ پیپلزپارٹی نے بھی بائیکاٹ کیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو بینچ پر تحفظات ہیں، بائیکاٹ نہیں کیا۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ بائیکاٹ کرکے دلائل دینے آگئے، اجلاس میں کہا گیا ہےکہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اس پر لارجر بینچ بننا چاہیے۔ وکیل ن لیگ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا، ہم نے وکالت نامے واپس نہیں لیے،ہمیں بینچ پر تحفظات ہیں، وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر بھی تحفظات ہیں۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کا اجلاس منعقد ہوا ہے، 48 گھنٹوں سےقومی پریس میں بائیکاٹ کا اعلان چل رہا ہے ، اگرآپ کو ہم پر اعتماد نہیں تو ہمیں بتائیں ، آپ کو ہم پر اعتماد ہی نہیں تو آپ دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ بائیکاٹ ہی کرنا ہےتو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی اس بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، سیاسی جماعتوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا تو تحریری طور پر بتائیں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنےکا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائےگئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لےکر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہوچکا۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامےکا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا توباقی استدعا ختم ہوجائیں گی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، دو ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں، دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کردی تھیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارا خیال ہے اکثریتی ججز از خود نوٹس مسترد کرچکے ہیں۔ چیف جسٹس نےکہا کہ آپ پانچ رکنی بینچ کا حکم نظر انداز کر رہے ہیں جنہوں نے چیف جسٹس کوبینچ بنانےکا اختیار دیا تھا، اس بینچ میں چار ججز نے خود کو الگ کیا، بینچ دوبارہ تشکیل دیا اس لیے انہیں شامل نہیں کیا، دو ججز نے بھی الگ سے آرڈر جاری کیا، تمام ججز اتفاق کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار ہے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان نے استدعا کی کہ اس کیس کی سماعت مؤخر کردی جائے۔ اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ آپ اپنا ذہن بنالیں کہ عدالت سے چاہتے کیا ہیں؟ آپ ایک طرف فل کورٹ کی بات دوسری طرف کیس مؤخرکرنےکا کہہ رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نےکہا کہ میری دانست اور میڈیا رپورٹس کے مطابق فل کورٹ کی استدعا مسترد ہوچکی، پہلی سماعت اورپھر جمعےکو بھی فل کورٹ کی استدعا کی مگرمانی نہیں گئی، فل کورٹ مسترد کرنےکا معاملہ حکم نامے میں بھی نہیں۔
جسٹس نے کہا کہ ہم نے کہا تھا فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی، سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا تھا، 31 مارچ کے سرکلر میں لکھاہے 5 رکنی بینچ کے فیصلےکی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پرسرکلر آیا ہے، فیصلےمیں لکھا ہے مناسب ہوگا 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، عوام کا مفاد مقدمات پر فیصلے ہونے میں ہے نہ کہ سماعت مؤخر کرنے میں، فیصلے میں تیسری کیٹیگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہرمقدمے میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمے میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کی تیسری کیٹیگری میں آسکتا ہے، 184/3 کے رولز بننے تک سماعت مؤخرکی جائے۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ 4 ججز نے درخواستیں مسترد کیں، ان کا فیصلہ اکثریتی ہے،4 ججز کے فیصلے پر نظرثانی کرلی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نےکیس سنا ہی نہیں ان کا فیصلہ ملا کر اکثریتی فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کیس سنے بغیر دیا گیا فیصلہ بہت محدود ہوتا ہے، سماعت کے بعد دیےگئے فیصلےکا الگ وجود ہوتا ہے، نظرثانی تب ہو جب وہ فیصلہ آپریشنل ہو، اس سےمتفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کےفیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خودکوبینچ سےالگ کرلیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پرصرف دستخط کیے تھے، تمام 15 ججز مختلف آراء اپنانے پر ایک مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجربینچ کی ہوسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پرمشتمل بینچ بنایا جائے، تین دو اور چارتین کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے، موجودہ حالات بہت مشکل ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر روسٹرم پر آگئے
اسد عمر کا کہنا تھا کہ میں سابق وزیر خزانہ ہوں، اس سال کا بجٹ خسارہ 4.9 فیصد ہے، 20 ارب الیکشن کے لیے دے دیے جائیں توبجٹ خسارے پر معمولی فرق آئےگا، اس سال کا ترقیاتی بجٹ 700 ارب روپے ہے، پہلے 8 ماہ میں 229 ارب روپے خرچ ہونے ہیں، ایم این ایز کو خصوصی فنڈز جاری کیے جائیں گے، آئینی ذمہ داری پوری کرنےکے لیے 20 ارب روپے نہ دینےکا بہانہ مذاق ہوگا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نےکہا کہ حکومت نے 8 ماہ میں 229 ارب خرچ کیے، اس کا مطلب کٹ لگائےگئے ہیں، توجہ کہیں اور ہے، ترقیاتی بجٹ کم نہ کریں، غیرترقیاتی بجٹ کو کم کردیا جائے، حکومت معاشی بہتری کے لیے اچھے اقدامات کر رہی ہے۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ 170 ارب روپے جمع کرنےکے لیے نئے ٹیکس لگائےگئے۔ جسٹس منیب نےکہا کہ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد ٹیکس جمع ہوا، پیٹرولیم مصنوعات پر حکومت کا خسارہ 157ارب روپےتھا،177 ارب ہوتا تو کیا ہوتا؟
ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نےکہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ خسارہ طے ہوچکا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اخراجات کم کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے توعدالت ختم کردے گی، الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنےکا کہیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نےکہا کہ اگر عدالت ذہن بنا چکی ہے تو ہمیں بتادیں، ہمارا موقف سن لیں پھر سیکرٹری سے بات کرلیں، عدالت سوشل میڈیا پر چلنے والی باتوں کا بھی نوٹس لے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوموٹو نہیں لیں گے، آپ درخواست دیں، حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے،عدالت فیصلہ کرے، 450 ارب روپے خرچ نہ ہونےکی وجہ اخراجات میں کمی ہے، حکومت نے اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی تقاضہ پورا کرنےکے لیے آرٹیکل 254 ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل
وکیل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق ایک طرف، درخواست گزار سیاسی جماعت اور دوسری جانب حکومت کے ہیں، جو تین رکنی بینچ بنایا گیا اس پر سوشل میڈیا پر بہت سی باتیں ہوئیں، تین رکنی بینچ کے ساتھ جانبداری کا عنصر شامل کرکے کچھ الفاظ جوڑے جارہے ہیں، پی ڈی ایم نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے جو پورا نہیں کیا گیا، سب بینچ کی جانبداری کی باتیں کر رہے ہیں، پتا پتا بوٹا بوٹا حال تو سارا جانے ہے،جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ توسارا جانے ہے، انصاف ناصرف ہونا چاہیے ، ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے، مجھےانصاف ہوتا نظر نہیں آرہا اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ بینچ کا وقار مجروح کر رہا ہوں، بینچ میں موجود ارکان نے پہلے ایک فیصلہ دیا جو تنازع کا شکار ہے، دیکھنا ہے کہ یہ چار تین کا فیصلہ تھا یا تین دوکا، آج عدالت میں بہت سیرحاصل بحث سننے کو ملی ہے، 9 ججز نے انتخابات کا معاملہ سنا، 4 نے خارج 3 نے الیکشن کمیشن کوحکم دیا، یہ بینچ ججز کے درمیان اختلاف ختم کرے، ججزکے درمیان صرف اندرونی نہیں بلکہ فیصلے پربھی اختلاف ہے، ایک سرکلر سپریم کورٹ کے فیصلے پرکیسے لاگو ہوسکتا ہے؟ کیس سننے کے لیے فل کورٹ نہ ہو بھی تو مزید ججز کو شامل کیا جائے، عوامی اعتماد کے لیے ضروری ہے تمام سائیڈز سے ججز کو بینچ میں شامل کیا جائے، ایک سیاسی جماعت کے بنیادی حقوق عوام کے بنیادی حقوق نہیں ہوسکتے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں میں عام اور صوبائی انتخابات ایک ہی دن ہوئے ہیں، پورے ملک میں انتخابات ایک ساتھ کرائے جانے چاہئیں، ملک کے مالی حالات میں بھی یہی بہترہے کہ انتخابات ایک ساتھ ہوں، انتخابات کرانے کا معاملہ عدالت کو الیکشن کمیشن پر چھوڑ دینا چاہیے، چار ججز کہہ چکے ہائی کورٹ انتخابات کے معاملے پر فیصلہ کرے، کے پی میں گورنر اور پنجاب میں صدر کو انتخابات کی تاریخ دینےکا حکم الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، چیف جسٹس سے درخواست ہے ججز کے اندرونی اختلافات ختم کرکے اتفاق رائے پیدا کیا جائے، جسٹس فائز عیسیٰ کا فیصلہ آپ کے خیال میں لازمی قابل عمل نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا کا ذکر آپ کر رہےہیں، پرسوں جسٹس فائز عیسیٰ سے ملاقات ہوئی، یہ آپ کوبتانےکی ضرورت نہیں، ملاقات میں فل کورٹ پر بات ہوئی، ملاقات میں یہ سمجھا کہ شاید جسٹس فائز عیسیٰ اپنے فیصلے کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہ بن سکیں، جلد فل کورٹ اجلاس بلائیں گے، آپ کا نکتہ نوٹ کرلیا ہے لیکن بتا نہیں رہا ورنہ آپ اس پربہت آگے نکل جائیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اس وقت جناب سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کر رہےہیں. ایک چیز ہوتی ہے عالمگیر گواہی، پرویز الہٰی کی آڈیولیک سے آن ریکارڈ آچکا وہ اسمبلی توڑنا نہیں چاہتے تھے، گورنر یا وزیراعلیٰ پنجاب نے اسمبلی مرضی سے نہیں توڑی تو انتخابات کی بات ہونی ہی نہیں چاہیے، موجودہ بینچ میں بھی جسٹس اعجازالاحسن کو شامل نہ کرتے توشفافیت آتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی وجوہات بتائیں کیوں جسٹس اعجازالاحسن کوبینچ میں شامل نہیں ہوناچاہیے، مجھے نہیں لگتاکہ میں اپنے انتظامی اختیارات پرآپ کو جوابدہ ہوں۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ آپ مجھے نہیں لیکن قوم کو جوابدہ ضرور ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل آرڈرز پر جوابدہ ہوں لیکن انتظامی آرڈرز پرنہیں، جسٹس اعجازالاحسن کےکیس سننےسے معذرت کا کیاکوئی دستخط شدہ آرڈر ہے؟ جسٹس منصور نے فیصلے میں بہت اچھی بات کہی، جسٹس منصور نے فیصلے میں کہا ایک جج بینچ میں شامل ہو تو نکالا نہیں جاسکتا۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ کئی بار ہوا ہےکہ جج کے دستخط سے پہلے فیصلے پبلک ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا کوئی دستاویزی ثبوت دکھائیں، بتایا گیا ہے ون مین شو والی بات میرےبارےمیں نہیں عمومی طورپرکہی گئی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے پوچھا کہ سیاسی جماعتوں نےکیا ہدایات لے لیں؟ فاروق نائیک نے جواب دیا کہ سیاسی جماعتوں کے اعلامیے میں عدالتی کاروائی سے بائیکاٹ کا ذکر نہیں۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونےکے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ فیصلہ سنانےکے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائےگا۔