اسلام آباد: آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کیساتھ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز (ایم ای ایف پی) کے حوالے سے اپنی فہرست بحث کیلئے شیئر کردی ہے لیکن ٹیکس لگانے کے درست اقدامات کو حتمی شکل دینے، بجلی کیلئے بنیادی ٹیرف میں اضافے اور مجموعی بیرونی فنانسنگ کے حصول پر اب بھی عدم اتفاق پایا جاتا ہے۔
ایم ای ایف پی میں تجویز کردہ زیر غور فہرست گزشتہ دو دنوں سے اسلام آباد میں پالیسی سازوں کے درمیان زیر بحث رہی ہے۔ آئی ایم ایف ’’مستقل محصولات کے اقدامات‘‘ پر اصرار کر رہا ہے ۔پاکستانی فریق (آج) پیر کو ورچوئل بات چیت کے ذریعے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کریگا تاکہ ٹیکس کے مخصوص اقدامات کو حتمی شکل دی جا سکے۔
پاور بیس ٹیرف پر دیرپا تنازع کو حل کیا جائے اور جون 2023 کے اختتام کیلئے مجموعی بیرونی مالیاتی ضروریات اور نیٹ انٹرنیشنل ریزرو (این آئی آر) ہدف کو شامل کیا جائے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ دونوں فریقین کو ان دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں کتنا وقت لگے گا۔
آئی ایم ایف ’’مستقل محصولات کے اقدامات‘‘ پر اصرار کر رہا ہے جس میں جی ایس ٹی کو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنا، پی او ایل مصنوعات پر جی ایس ٹی لگانا اور توانائی پر پٹرولیم لیوی کو بڑھانا شامل ہیں۔ ٹیکس قوانین میں ترمیمی آرڈیننس 2023 اس ہفتے کے اندر ممکنہ طور پر 15 فروری 2023 سے جاری ہونے کی توقع ہے تاکہ رواں مالی سال کے بقیہ ساڑھے چار ماہ کی مدت میں 170 ارب روپے کا اضافی ٹیکس حاصل کیا جا سکے۔
جی ایس ٹی کی شرح 1 فیصد بڑھا کر 17 سے 18 فیصد کرنے سے 60 سے 65 ارب روپے حاصل ہونگے، بینکنگ ٹرانزیکشنز پر ود ہولڈنگ ٹیکس بڑھا کر 45 ارب روپے، مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) میں اضافہ (یہ ابھی زیر غور ہے)، مقامی طور پر تیار اور درآمد شدہ گاڑیوں پر ایف ای ڈی میں اضافہ اور سگریٹ پر ایف ای ڈی میں اضافہ وغیرہ۔ کچھ تجاویز پر دونوں فریقوں کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی اور ایک مرحلے پر وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی کو جذباتی ماحول کو پرسکون کرنے کیلئے کردار ادا کرنا پڑا جیسا کہ پاکستان کی جانب سے ایک شریک نے گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف مشن کے سامنے دلیل دی تھی کہ فنڈ مشن بڑھتے ہوئے افراط زر کے دباؤ کے درمیان ہر قسم کے ’’رجعی ٹیکسوں کے اقدامات‘‘ کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے۔
پاور سیکٹر میں آئی ایم ایف نے بنیادی ٹیرف میں اضافے کا مطالبہ کیا کیونکہ حکومت نے قرضوں کے ڈھیر کو کم کرنے کیلئے بیس لائن منظر نامے کو نیچے لانے کیلئے ایک نظرثانی شدہ سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان (سی ڈی ایم پی) کی منظوری دیدی ہے۔
نظرثانی شدہ سی ڈی ایم پی نے بیس ٹیرف میں اضافے پر کچھ نہیں بتایا جیسا کہ پاکستانی حکام نے استدلال کیا کہ انہوں نے یہ گزشتہ اگست 2022 میں کیا تھا۔ لیکن آئی ایم ایف نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور بیس ٹیرف میں 4.06 روپے فی یونٹ اضافہ کرنے کا کہا۔
مجموعی بیرونی فنانسنگ اور این آئی آر ہدف پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک سینئر عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ جون 2023 کے اختتام کیلئے این آئی آر ہدف پر آئی ایم ایف کیساتھ اتفاق ہونا باقی ہے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کی معیشت کو درپیش سب سے پیچیدہ مسئلہ بیرونی مالیاتی ضروریات کو حاصل کرنے کی صلاحیت کو یقینی بنانا ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو 30 جون 2023 تک 2.9 ارب ڈالرز کی موجودہ سطح سے بڑھانا جائے۔
اگست/ستمبر 2022 میں آئی ایم ایف کے آخری جائزے کے موقع پر جون 2023 کے اختتام کیلئے اسٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 16.2 ارب ڈالرز مقرر کیے گئے تاہم اسے اس سطح تک لانا ناممکن لگتا ہے۔ یہ سب سے اہم نکتہ ہے کیونکہ پاکستان سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور چین کی جانب سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہے۔
ان ممالک کا کہنا ہے کہ اگر اسلام آباد آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہوتا ہے تو وہ پاکستان کی حمایت کرینگے جبکہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ وہ پروگرام میں صرف اس وقت داخل ہو گا جب یہ ممالک پاکستان کو امداد کی یقین دہانی کرائینگے۔ دونوں پاکستان کو اپنی حمایت کا کہہ رہے ہیں تاحال یہ معلوم نہیں کہ آنے والے چند دنوں اور ہفتوں میں یہ مسئلہ کیسے حل ہو گا۔