اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت جاری ہے۔ گزشتہ روز کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی تھی اور اب پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
پانچ رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔
گزشتہ روز سماعت شروع ہوئی چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ چار ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا ہے، عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہےگا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی۔
سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم بھی جاری کردیا،تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔
23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ ہیں، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ لکھا ہےکہ دو سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہےکہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ لکھا کہ آئین ایک ایسی دستاویز ہے جسے آنے والے ہر وقت میں چلنا ہے، اس عدالت کی آئین کی تشریح کے عام لوگوں اور آنے والی نسلوں پر اثرات ہیں، از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، یہ ناگزیر ہے کہ آئینی خلاف ورزیوں اور آئینی تشریح کے اہم معاملات کو فل کورٹ سنے، چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار کی آئینی تشریح بھی ضروری ہو گئی ہے۔
آج کی سماعت
سپریم کورٹ میں آج کی سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری پر اعتراض اٹھادیا،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نےکہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں، جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستخط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔
سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہےکہ انتخابات 90 دن میں ہی ہونے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کےتحت صدر اور گورنر فیصلے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کےتحت نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پرگورنرکسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرےگا؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 90 دن کا وقت اسمبلی تحلیل کےساتھ شروع ہوجاتا ہے، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنےکی کیا ضرورت ہے؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا نگران وزیراعلیٰ الیکشن کی تاریخ کی ایڈوائس گورنرکو دے سکتا ہے؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے؟ اس پر سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری نے کہا کہ نگران حکومت کاکام تاریخ دینا نہیں، حکومتی امور سنبھالنا ہے، الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیار گورنرکا ہے، وزیراعلیٰ کا نہیں۔
عابد زبیری کا کہنا تھا کہ سیف اللہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کا عمل لازمی قرار دیا تھا، آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے بتائے گئے ہیں۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ نگران حکومت تو 7 دنوں کے بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ اگر حکومت کی تاریخ سے متعلق ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنرکہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی۔
وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3) میں ہے، اتنے دنوں سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، وقت کی معیاد مکمل ہونے پر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدرتاریخ دےگا، میرا موقف ہےکہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی؟ 90 دنوں میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا، جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ صدر کے اختیارات براہ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں توپھر قانون کے تحت اقدام ہوگا، قانون بھی آئین کے تحت ہی ہوگا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے، صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں؟ وکیل عابد زبیری نےکہا کہ صدر مملکت نے مشاورت کے لیے خط لکھے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے، جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینےکا کہہ سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرےفریق کو سن کرفیصلہ کریں گےکہ صدرکو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔ وکیل عابد زبیری نےکہا کہ گورنر الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں، گورنر والا ہی اختیار صدر کو بھی دیا گیا ہے، صدر بھی الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ گورنر کو اگر ایڈوائس کی جائے تو وہ اس کا پابند ہوگا۔
اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں، اگر گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانےگا، الیکشن 90 دنوں میں ہی ہونے چاہئیں، الیکشن کو 90 دنوں سے آگے نہیں لے جانا چاہیے۔