اسلام آباد: وزیر مملکت پیٹرولیم مصدق ملک نے سپریم کورٹ پروسیجر بل پر چیف جسٹس کے حکم امتناع پر سوال اٹھادیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مصدق ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر چیف جسٹس اسٹے کیسے دے سکتے ہیں جو ابھی قانون ہی نہیں بنا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی حکومت کے پاس دس دن ہیں جس میں حکومت اس میں کئی تبدیلیاں کرسکتی ہے جبکہ تحریک انصاف کے وکیل گوہر خان نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اب ڈیمڈ لاء بن چکا، اس کو تبدیل یا واپس نہیں کیا جاسکتا۔
ترمیمی بل کیا ہے؟
بل کے تحت سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائے گا جب کہ کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے اور کمیٹی کا فیصلہ اکثریت رائے سے ہو گا۔
آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پر3 یا اس سے زائد ججزکا بینچ بنایا جائے گا، آئین اور قانون سے متعلق کیسز میں بینچ کم از کم 5 ججز پر مشتمل ہو گا جب کہ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکے، دائر اپیل 14 روز میں سماعت کے لیے مقررہوگی، زیرالتوا کیسز میں بھی اپیل کا حق ہوگا، فریق اپیل کے لیے اپنی پسند کا وکیل رکھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہنگامی یا عبوری ریلیف کے لیے درخواست دینےکے 14 روزکے اندر کیس سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔
دوسری جانب مقننہ اور عدلیہ آمنے سامنے، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 8رکنی لارجر بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون پر پیشگی حکمِ امتناع جاری کرتے ہوئے تاحکم ثانی کسی بھی انداز اور طریقے سے عمل درآمد روک دیا۔ سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی جس کے بعد حکم نامہ جاری کیا گیا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی آج کی سماعت کا حکم نامہ 8 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3 درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی گئیں، ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے۔
حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت 2 مئی کو ہو گی، حکم امتناعی کا اجرا نا قابل تلافی خطرے سے بچنے کیلئے ضروری ہے، صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تا حکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کیلئے متفکر ہے، اس ضمن میں مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے عدالت کی مداخلت درکار ہے، سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکلاء کے ذریعے فریق بن سکتی ہیں۔