اسلام آباد کی مقامی عدالت نے فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ سنا دیا۔ ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان نے فواد چوہدری کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا اور انہیں 27 جنوری کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔
ڈیوٹی مجسٹریٹ نویدخان نے دو صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کچھ گھنٹے قبل فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد انہیں طبی معائنے کیلئے پمز اسپتال منتقل کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق پمز اسپتال میں فواد چوہدری کا طبی معائنہ مکمل کرلیا گیا اور ڈاکٹرز نے انہیں تندرست قرار دے دیا۔
قبل ازیں اسلام آباد کی ایف ایٹ کچہری میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی پیشی کیلئے کمرہ عدالت تبدیل کردیا گیا۔ رش ہونے اورجگہ تنگ ہونے کے باعث کمرہ عدالت تبدیل کیا گیا۔ مجسٹریٹ نوید خان کا کہنا تھاکہ کورٹ روم دوسرے فلورپر ہے، مشکلات ہوں گی، شبیر بھٹی کی عدالت گراؤنڈ فلور پر ہے آسانی ہو گی۔
سماعت شروع ہونے پر فواد چوہدری کو کمرہ عدالت میں ہتھکڑی لگاکر پیش کیا گیا جس پر پی ٹی آئی کے وکلاء نے ان کی ہتھکڑی کھولنے کی استدعا کی۔ دوران سماعت تفتیشی افسر نے فواد چوہدری کے 8 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سعدحسن نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ فواد نےکہا الیکشن کمیشن کی حالت اس وقت منشی کی ہے۔ اس پر فواد چوہدری نے لقمہ دیا کہ تو الیکشن کمیشن کی حالت منشی کی ہوئی ہے۔ عدالت نے فواد چوہدری کو لقمہ دینے سے ٹوک دیا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کرانےکےتمام اختیارات ہیں، سوچےسمجھے منصوبےکےتحت الیکشن کمیشن کوٹارگٹ کیاجارہاہے، فواد چوہدری کی تقریر کا مقصد سب کواکساناتھا، انہوں نے کہا الیکشن کمیشن والوں کےگھروں تک پہنچیں گے، تقریر کا مقصد الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت کو فروغ دینا تھا۔
وکیل الیکشن کمیشن کے مطابق فواد چوہدری کے خلاف کافی الیکٹرانک مواد موجود ہے، میں الزامات پڑھ رہا تھاتو وہ ان شاءاللہ، ماشاءاللہ کہہ رہےتھے، انہوں نے جو تقریرمیں کہاوہ انہوں نےمانابھی ہے، کیا فواد چوہدری سے متعلق فیصلہ کرنا درست نہیں؟ ان کی تقریر کے پیچھے لوگوں کا پتا کرنا ہے، ان کی تقریر کے پیچھے مہم چل رہی ہے، فواد سے ان کے بیان پر پولیس کو ابھی تفتیش کرنی ہے۔ فواد چوہدری نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں بغاوت کی دفعہ بھی لگادی گئی ہے، میرے خلاف تو مقدمہ بنتاہی نہیں ہے، ایسے تو جمہوریت ختم ہو جائے گی، کوئی تنقید نہیں کر پائے گا، اگر الیکشن کمیشن پرتنقیدنہیں کرسکتے تو مطلب کسی پر تنقید نہیں کرسکتے، مدعی وکیل کا مطلب ہےکہ تنقید کرنا بغاوت ہے، میں تقریر کر ہی نہیں رہاتھا، میں میڈیا ٹاک کررہا تھا، میری باتیں غلط کوٹ کی گئی ہیں۔