سکندر اعظم کی موت اور اس کے بعد کے واقعات ہمیشہ سے بحث کا موضوع رہے ہیں تاہم نیوزی لینڈ کی ایک سائسدان اوٹاگو یونیورسٹی کی ڈاکٹر کیتھرین ہال نے اپنی تحقیق میں ایک خوفناک انکشاف کیا ہے۔ ڈاکٹر ہال کا کہنا ہے کہ سکندراعظم کو زندہ ہی دفن کر دیا گیا تھا۔ برصغیر کے تاریخ دانوں کے مطابق سکندراعظم جہلم کے کنارے راجہ پورس کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے زخمی ہوا اور بعد ازاں فوت ہو گیا۔ تاریخ دان اس بات پر تو متفق ہیں کہ سکندر کی موت 32 سال کی عمر میں 10 جون کی شام اور 11 جون 323 قبل مسیح کی شام کے درمیان بابل میں نبوکدنزار دوم کے محل میں ہوئی تاہم عظیم فاتح کی موت کی وجہ ہمیشہ ایک لاینحل معمہ ہی رہا ہے۔
جب سکندر اعظم کا جسم اس کی موت کے چھ دن بعدتک بھی گلنے سڑنے سے بچا رہا تو قدیم یونانی خوف میں مبتلا ہو گئے۔ اس کے وفادار پیروکاروں کا خیال تھا کہ چونکہ سکندراعظم ایک دیوتا ہے اس لیے اس کا جسم محفوظ رہا ہے۔ ان کے دعووں کے برعکس جدید سائنس دانوں کا خیال ہے کہ درحقیقت سکندراعظم کا جسم گلنے سے اس لیے بچا رہا کیونکہ وہ اصل میں ابھی مردہ نہیں تھا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سکندر اعظم شاید تاریخ کا سب سے مشہور شخص تھا جسے زندہ دفن کیا گیا تھا۔
ایک قدیم یونانی مورخ پلوٹارک نے سکندر کے دور حکومت کے کئی سو سال بعد ایک کتاب لکھی۔ وہ لکھتا ہے کہ مقدونیہ کے سکندراعظم کا انتقال 323 قبل مسیح میں ہوا۔ اس کا کہنا ہے کہ سکندراعظم 24 گھنٹے شراب پیتا رہا اور اسے بخار تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی کمر میں شدید درد محسوس کیا جیسے نیزے سے مارا گیا ہو۔چند ہی لمحوں میں اس کا جسم مفلوج ہو گیا اور بالآخر 32 سالہ سکندر اعظم کو مردہ قرار دے دیا گیا۔ تاہم، اس کی موت کی وجہ ہزاروں سال تک ایک معمہ بنی رہی ہے – لیکن ایک ڈاکٹر نے حال ہی میں اس راز سے پردہ اٹھایا ہے۔ اگر وہ ڈاکٹر صحیح ہے، تو اس کی موت کسی ہارر سٹوری سے کم نہیں۔
فروری 2019 میں، نیوزی لینڈ میں اوٹاگو یونیورسٹی کی ڈاکٹر کیتھرین ہال نے تاریخ سے متعلقہ ایک جرنل میں لکھا کہ سکندراعظم ایک مخصوص سنڈروم کا شکار ہو اتھا جسے Guillain-Barré Syndrome یا مختصراً جی بی ایس کا کہا جاتا ہے۔اس سنڈروم کے شکار شخص کی قوت مدافعت بالکل ختم ہو جاتی ہے جس سے فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ قوت مدافعت کی شدید کمی بخار، پیٹ میں درد، اور فالج کا باعث بن سکتی ہے -ڈاکٹر ہال کے نزدیک الیگزینڈر کی موت کے بارے میں پلوٹارک کا دعویٰ بالکل ٹھیک لگتا ہے کہ سکندراعظم کا جسم مکمل مفلوج تھا اور اسے مردہ سمجھ کر زندہ ہی دفن کر دیا گیا تھا۔
ڈاکٹرہال نے لکھا ہے کہ”اچھی ذہنی صلاحیت اور قوت مدافعت کے حامل لوگوں میں فالج کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔ اور میں نے اسے صرف GBS کے ساتھ دیکھا ہے۔“ ڈاکٹر ہال کے مطابق سکندراعظم کو کیمپیلو بیکٹر پائلوری انفیکشن سے GBSکا عارضہ لاحق ہوا اور یہی انفیکشن کی دنیا میں GBSکی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔
چوتھی صدی قبل مسیح میں، معالج موت کی تشخیص کے لیے مریض کی نبض نہیں دیکھتے تھے بلکہ مریض کی سانس سے اندازہ لگاتے تھے۔ چونکہ سکندراعظم مفلوج تھا، اس کے جسم کو کم آکسیجن کی ضرورت تھی، اس کی سانسیں بہت کم آ رہی تھیں۔ اس طرح اسے مردہ سمجھ لیا گیا جبکہ وہ نہ صرف زندہ تھا بلکہ اس کی ذہنی صلاحیتیں مکمل طور پر برقرار تھیں۔
ڈاکٹر ہال کے خیال میں الیگزینڈر کو موت سے چھ دن پہلے مردہ قرار دیا گیا تھا۔ پلوٹارک کے مطابق سکندراعظم کا جسم مرنے کے چھ دن بعد تک تر و تازہ رہا۔ اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ سکندر کو زندہ دفن کر دیا گیا تھا۔
ایسا نہیں کہ ہر سائنسدان ڈاکٹر ہال سے متفق ہے،کچھ سائنسدان ڈاکٹر ہال کی اس وضاحت سے اختلاف کرتے ہیں۔ان کا کہنا کہ اس دعوے کا ماخذ سکندراعظم کی موت کے 400 سال بعد لکھا گیا تھا، اور کسی کی باقیات کی جانچ کیے بغیر اس کی صحیح تشخیص کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ یاد رہے سکندراعظم کی تدفین کی جگہ کبھی نہیں ملی۔
ڈاکٹرہال نے کہا،”میں سکندراعظم کی موت کے بارے میں پائی جانے والی تھیوریز میں ایک نئے بحث و مباحثہ کو فروغ دینا چاہتی ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے نئی تحقیق تاریخ کو بدل کر رکھ دے گی“۔ سکندراعظم کی موت عوام و خواص دونوں کے لیے دلچسپی کا باعث رہی ہے۔ ڈاکٹر ہال کی تحقیق کے مطابق آدھی دنیا کے فاتح سکندر اعظم نے خود اپنی تدفین کا مشاہدہ کیا ہوگا۔