اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے، عدالت نے آج سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ کو طلب کررکھا ہے۔
سپریم کورٹ میں آج سماعت کے موقع پر سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ میں انہی افراد کو داخلے کی اجازت ہے جن کے مقدمات زیرسماعت ہیں۔ سماعت کے آغاز سے قبل اٹارنی جنرل پاکستان کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مقدمہ نہ سنے۔
حکومتی اتحاد کا عدالت کا بائیکاٹ کا اعلان
حکومتی اتحاد نے فل کورٹ نہ بنائے جانے کی صورت میں سپریم کورٹ کی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
یکم اپریل کو ہونے والے اجلاس کے بعد حکومتی اتحادی جماعتوں کے اعلامیے میں حکومتی اتحاد نے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔
سپریم کورٹ کا حکومتی اتحاد کے وکلا کو سننے سے انکار
آج سماعت شروع ہوئی توپاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آگئے اور استدعا کی کہ میں کچھ کہنا چاہتے ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کیس کا حصہ بن رہے ہیں؟ کیا آپ بائیکاٹ نہیں کر رہے تھے؟ وکیل پیپلز پارٹی فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ مشاورت کرکے ہمیں بتائیں، ہمیں تحریری طور پربتائیں، اگربائیکاٹ نہیں کیا تو بھی بتائیں، اخبارات میں آیا ہےکہ پیپلزپارٹی نے بھی بائیکاٹ کیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو بینچ پر تحفظات ہیں، بائیکاٹ نہیں کیا۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ بائیکاٹ کرکے دلائل دینے آگئے، اجلاس میں کہا گیا ہےکہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اس پر لارجر بینچ بننا چاہیے۔ وکیل ن لیگ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا، ہم نے وکالت نامے واپس نہیں لیے،ہمیں بینچ پر تحفظات ہیں، وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر بھی تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ بائیکاٹ ہی کرنا ہےتو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی اس بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس نکتے پر پہلے بات کرچکے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ آگے بڑھا سکتا ہے، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے اسی بات کی توقع ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلہ سناچکی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کیسے تاریخ آگے بڑھاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کا حکم ایگزیکٹو سمیت سب اداروں پر لاگو ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کا ہی تھا، 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس میں سے4 ججز نے درخواستیں مستردکیں، 4 ججز نے تفصیلی فیصلے جاری کر دیے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے درخواستوں کو مستردکیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواستوں کو مسترد نہیں کیا، اس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس یحیٰی آفریدی کے فیصلے سے اتفاق کیا تھا، 9رکنی لارجربینچ نے 2 دن کیس کی سماعت کی تھی۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ یکم مارچ کو کوئی عدالتی حکم موجود نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 5 رکنی بینچ کبھی بنا ہی نہیں تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور کے پی کے لیےگورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر کے پی نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنےکا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائےگئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لےکر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہوچکا۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامےکا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا توباقی استدعا ختم ہوجائیں گی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، دو ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں، دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کردی تھیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی کاروائی عوامی مفاد کے لیے ہوتی ہے، ججز کی رائے الگ ہوتی رہتی ہے، سپریم کورٹ میں ہمارے مختلف خیالات ہوتے ہیں لیکن مشاورت بھی ہوتی ہے، ہماری بینچ سے الگ بھی آپس میں بات چیت ہوتی ہے، اس سے متعلق جواد ایس خواجہ نے اپنی یادداشتیں بھی لکھی ہیں، اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اپنی نشست سے کھڑے ہوکر بول پڑے اور کہا کہ آپ اسے مت کوٹ کریں، وہ جھوٹ ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارا خیال ہے اکثریتی ججز از خود نوٹس مسترد کرچکے ہیں۔ چیف جسٹس نےکہا کہ آپ پانچ رکنی بینچ کا حکم نظر انداز کر رہے ہیں جنہوں نے چیف جسٹس کوبینچ بنانےکا اختیار دیا تھا، اس بینچ میں چار ججز نے خود کو الگ کیا، بینچ دوبارہ تشکیل دیا اس لیے انہیں شامل نہیں کیا، دو ججز نے بھی الگ سے آرڈر جاری کیا، تمام ججز اتفاق کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ چیف جسٹس نے جو اختیار استعمال کیا وہ انتظامی نہیں عدالتی ہے، مقدمےکی سماعت میرٹ پرکی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا تھا چیف جسٹس چاہیں تو مجھے بینچ میں دوبارہ شامل کرسکتے ہیں، اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ جب جج نے کہہ دیا چیف جسٹس کی مرضی ہے بینچ میں رکھے یا نہیں تو بات ختم، کسی کیس میں ایسا ہوا کہ ایک دن جج درخواست مسترد کرے اگلے دن اسی بینچ میں بیٹھ جائے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججزکی آپس میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کے لیے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے آپسی معاملات ہوتے ہیں، عدالتی کاروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں، تفصیلی اختلافی نوٹ میں بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نکتہ شامل نہیں۔