پشاور (سید زاہد عثمان) خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے وزیراعلیٰ کو چیلنج کیا ہے کہ وہ گورنر ہاوس کے گیٹ پر قدم رکھ کردکھا دیں،پھر اپنی حالت دیکھیں۔
اخبار خیبر سے خصوصی بات کرتے ہوئے گورنر فیصل کریم کنڈی نے وزیراعلی کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعلی علی امین گنڈاپور جس لیول میں بات کرتے ہیں وہ میرے لیول سے بہت نیچے ہے،اگر وہ میرے لیول پر آکر بات کرینگے تو اسکا جواب دونگا وزیر اعلی جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ اصلی نہیں بلکہ اپنی نوکری بچانے کے لئے ایسا کررہے ہیں،اگر ایسا نہیں تو اویس لغاری او محسن نقوی سے ملاقات میں منتیں نہ کرتے اور اپنا لہجہ نہ بدلتے،گورنر پختونخوا کا یہ بھی کہنا تھا کہ،وزیراعلی عمران خان کے ہاتھوں مجبور ہیں جو لفاظی کرتے ہیں ایسا نہ کریں تو جیل میں جاکر بےعزتی ملتی ہے اور سکورنگ بھی کم ہوگی،کام تو ویسے بھی ان لوگوں نے نہیں کرنا صوبے کو تحریک انصاف نے تباہی کے سوا کیا دیا ہے،ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے گورنر کا کہنا تھا کہ یہ جو بجلی کا بٹن بند کردونگا کی بات کرتے ہیں یہ صرف ڈائیلاگ ہے،اصل میں وزیر اعلی کی حکومت کا بٹن میرے پاس ہے اگر میں نے بٹن دھبا دیا تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے،صوبے کے حقوق لینے کے لئے زبان ایسی نہیں ہوتی اور نہ وفاق زبردستی کسی صوبے کا حق روک سکتی ہے،وزیر اعلی علی امین گنڈاپور کی گورنر ہاوس سے نکالنے کی دھمکی کا جواب دیتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا ک مھجے گورنر ہاوس سے نکالنے اور دانا پانی بند کرنے کی باتیں بھی ڈائیلاگ کے سوا کچھ بھی نہیں میں اپنا دفاع کرنا جانتا ہوں،اسکے بولنے سے کچھ بھی فرق نہیں پڑیگا، ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے گورنر فیصل گریم کنڈی نے اخبار خیبر کو بتایا کہ صوبے کےحقوق اور مسائل کے حوالے سے میں نے تمام پارٹیوں سے ملنے کا سلسلہ شروع کیا ہے،تحریک انصاف کے لئے میرے دروازے کھلے ہیں پہلے بھی کہا تھا اب بھی کہتا ہوں صوبے کے مسائل کے لئے میں ہر سطح پر ساتھ دونگا،سابق وزیراعلی محمود خان سے دو ملاقاتیں ہوئی ہیں انکی پارٹی،اے این پی،مسلم لیگ ن،قومی وطن پارٹی اور باقی پارٹیوں کی ایک مشترکہ کمیٹی بنائیں گے،کمیٹی میں ہر پارٹٰی سے دو نمائندگان کو شامل کیا جائیگا،جو وفاق سے صوبے کے مسائل اور بقایاجات کے بارے میں بات کریگی مجھی امید ہے وزیراعظم صاحب ہماری بات سنیں گے،خیبر پختونخوا کی سرکاری یونیورسٹیوں میں مالی مسائل کے بارے میں سوال پر گورنر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم صاحب نے یونیورسٹیوں کی بجٹ پر کٹ لگانے کا فیصلہ واپس لیا ہے،پختونخوا کی یونیورسٹیوں کو چالیس ارب روپے ملیں گے،آج بھی بائیس یونیورسٹیاں وائس چانسلر کی تعیناتی سے محروم ہیں،انٹرویو وغیرہ ہوچکے ہیں مگر انکی حکومت نے اسکا روکا ہوا ہے،میری کوشش ہوگی کہ یونیوسٹیوں کے مسائل کو جلد از جلد حل کروں تاکہ صوبے میں تعلیمی درسگاہیں آباد رہیں
بدقسمت پختونخوا کے وزیراعلی،گورنر اور آئی جی پی کا تعلق ڈی آئی خان سے ہے مگر ضلع ڈی آئی خان گزشتہ تین سال سے "نوگو ایریا” میں تبدیل ہوگیا ہے،گزشتہ تین سال میں سب سے زیادہ پرتشدد واقعات ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں رونما ہوئے ہیں،سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران شمالی وزیرستان کے بعد ڈی آئی خان میں سب سے زیادہ دہشتگردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں جسکی تعداد سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران شمالی وزیرستان کے بعد ڈی آئی خان میں سب سے زیادہ دہشتگردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں جسکی تعداد سنتیس ہے،مگر اس صوبے کے دو بڑی گورنر اور وزیراعلی کو ایک دوسرے کے خلاف تنقید اور بیان بازی سے فرصت نہیں،صوبے اور ڈی آئی خان کے امن و امان کی بات تو شائد دونوں صاحب اقتدار بھول گئے ہیں