اسلام آباد(مدثر حسین) 31 جولائی کو ایرانی راجدھانی تہران میں حماس رہنما اسماعیل ہانیہ اور لبنان میں حزب اللہ لیڈر فواد شکر کی اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں شہادت کے بعد ایسا لگ رہا تھا جیسے ایران اور حزب اللہ چند ہی گھنٹوں کے اندر اسرائیل پر جوابی حملہ کریں گے، اسرائیلی کارروائیاں اتنی خطرناک کوشش تھی کہ ایک دفعہ پھر مشرق وسطیٰ پر جنگ کے مہیب بادل سرعت کے ساتھ چھا گئے اور ہر طرف ایران کی جوابی کارروائی کی باتیں ہونے لگیں لیکن اس واقعے کے بعد اب تک یعنی بیچ میں ڈیڑھ ہفتہ گزر گیا اور تاحال ایران نے کوئی بھی جوابی اقدام نہیں اٹھایا، تو کیا ایران جوابی کارروائی سے پیچھے ہٹ گیا؟
یقیناَ َ ایسا نہیں ہے، کیونکہ تہران میں نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کے چند گھنٹے بعد ہوئے اس واقعے نے پورے ایران میں بدلے اور انتقام کے جذبات کو ابھارا ہے، تاہم کچھ عوامل ایسے ہیں جن کی وجہ سے ایران فوری ردعمل دینے سے رہ گیا۔ ان عوامل میں سب سے اہم اسرائیل کی فضائی برتری ہے، برسوں سے امریکہ نے اسرائیل کو اس کیل کانٹے سے لیس کیا ہے جو پورے مشرق وسطی ٰمیں کسی دوسرے امریکی حلیف ملک کے پاس نہیں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن ، قطر وغیرہ جو بظاہر عشروں سے امریکی حلیف ہیں، ان میں سے کسی کے پاس بھی اپنا میزائل شکن دفاعی نظام نہیں، دوسری طرف اسرائیل کے پاس طویل اور مختصر فاصلے سے مارے گئے میزائلز اور راکٹس کو روکنے کے لیے آئرن ڈوم، ڈیوڈ سلنگ اور امریکی پیٹریاٹ میزائلز کی بیٹریاں موجود ہیں، اسی طرح ایران کو پتہ ہے کہ اسرائیل کے اندر سویلین مقام کو ٹارگٹ کرنے کی صورت میں اسرائیل اپنے جدید جنگی طیاروں کے ذریعے ایران کی انفراسٹرکچر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے، خصوصا َ َایرانی ایٹمی ریکٹرز پر حملہ اسرائیل کی دیرینہ خواہش ہےاور تہران نہیں چاہتا کہ اسرائیل کو یہ موقع ملے کہ وہ ایران کی برسوں کی محنت یعنی نیوکلیر پروگرام پر کاری ضرب لگا دے، یا پھر ایرانی تیل ریفائنریز پر حملے کر کے ایرانی رجیم کو بالکل مفلوج کردے، اسی طرح ایران کی کمزور فضائی قوت بھی فوری ردعمل کی راہ میں رکاوٹ ہے، ایرانی فضائیہ کے پاس انقلاب سے پہلے کے روسی اور امریکہ ساختہ جنگی جہاز ہیں، جو سیکنڈ یا بمشکل تھرڈ جنریشن طیارے ہیں، ان میں ایس یو 24 کو چھوڑ کر ایسا کوئی طیارہ نہیں جو لمبے فاصلے پر جاکر بمباری کریں، یہ ایرانی طیارے فرسودہ ٹیکنالوجی سے لیس ہیں، جو آجکل کے جدید سٹیلتھ طیاروں کا بالکل بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔
کمزور فضائی طاقت کے علاوہ امریکی اور علاقائی عرب ممالک کی جنگ روکنے کی کوشش بھی ایران کو فوری حملہ کرنے سے باز رکھے ہوئے ہیں، رواں سال اپریل میں جب شام میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کے بعد ایران نے اسرائیل پر سینکڑوں ڈرونز اور بیلسٹک میزائلز کے ذریعہ حملہ کیا تھا، تب بھی اردن، سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات نے امریکہ کے ساتھ ملکر اپنے اپنے فضائی حدود سے گزرنے والے ایرانی پروجیکٹائلز کو گرایا تھا، ایران نہیں چاہے گا کہ اب کی بار پھر اسکا حملہ ایک ناکام کوشش ثابت ہو۔
تاہم ایسا بھی نہیں کہ ایران اپنی عسکری کمزوری کی وجہ سے اسرائیلی کارروائی کو درگزر کرے، مختلف عالمی میڈیا رپورٹس میں کہا جاتا ہے کہ ایران اسرائیل کے عسکری تنصیبات پر وار کرنے کی تیاری کر رہا ہے،ایرانی سپریم لیڈر سیدنا آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی سخت جواب کی دھمکی دی ہے، کیونکہ ایرانی دارالحکومت میں حماس رہنما کا قتل وہ داغ ہے جسے ایرانی پاسداران انقلاب ہر حال میں دھونے کی کوشش کریں گے، پاسداران انقلاب اور نئی ایرانی حکومت میں اس مدعے پر خاصا سوچ وبچار ہوا ہے، کہ کیسے اسرائیل کو سبق بھی سکھایا جائے اور خطہ وسیع جنگ سے بھی محفوظ رہے، ایک ممکنہ منظرنامہ حزب اللہ اور دوسرے ایران نواز ملیشا کے ذریعے اسرائیلی اہداف پر حملے ہیں، تاہم اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس حوالے سے آئندہ دو تین دن اہم ہیں۔