پشاور( حسن علی شاہ سے ) دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں کسی کی ذاتی زندگی سے وابستہ کسی بھی عمل کی تشہیر کرنا تہمت لگانا عزت نفس کو مجروح کرنا سب سے بڑا قبیح جرم ھے مگر ہمارے ہاں معاملہ اسکے برعکس ھے.
سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ھے جہاں آپ کسی کے بھی خلاف جو چاھیں پوسٹ کردیں، فیک ویڈیو شئر کردیں چاھے آپکے اس عمل سے کسی کی زندگی تباہ ھوکر رہ جائے، عزت و ناموس کا جنازہ نکل جائے ازدواجی رشتے ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ھوجایئں، کوئی قاعدہ قانون نہیں جو ایسے ٹک ٹاکر کو نکیل ڈال سکے جو اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے ناقابل معافی جرم کا ارتکاب دیدہ دلیری سے کررھے ہیں۔
گزشتہ دنوں اسلامیہ کالج پشاور کے نوجوان طالبعلم ضیاءالدین کی ھاسٹل میں خودکشی کی خبر سامنے آتے ھی سوشل میڈیا پہ ایک بھونچال آگیا حسب روایات نام نہاد یوٹیوب چینلز اینکرز اور ٹک ٹاکر کمر کس کر میدان میں کود پڑے ضیاءالدین کے ویڈیو پیغام کے باوجود اسکی خودکشی کو غلط رنگ دیکر ٹک ٹاکرز نے مرحوم کے خاندان خصوصا والدین کے زخموں پہ نمک چھڑکا جو کہ ذلالت کی انتہا ھے اب تو صورتحال ی بنتی جارھی ھے کہ کوئ بھی شریف النفس انسان ٹک ٹاک پہ سامنے آنے پہ بھی شرم محسوس کرنے لگا ھے۔