پاکستان میں بارشوں کے غیر متوقع رجحانات
اسلام آباد:- (افضل شاہ یوسفزئی) پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اب صرف سروے کی رپورٹس تک محدود نہیں رہے۔ جنوری 2025 کے اعداد و شمار نے اس حقیقت کو مزید گہرائی سے سامنے لایا ہے کہ
۔گیلپ پاکستان کے مطابق اس ماہ ملک بھر میں اوسطاً صرف 8.5 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 55 فیصد کمی کا شاخسانہ ہے۔
شمالی پنجاب جیسے خطے جہاں جنوری میں معمول کی بارشیں زراعت کے لیے اہم ہوتی ہیں، اس بار خشکی کی لپیٹ میں رہے۔
دوسری طرف خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں 5 جنوری کو سب سے زیادہ یومیہ بارش (72.6 ملی میٹر) ہوئی، جبکہ یہی مقام پورے مہینے میں سب سے زیادہ بارش (146.9 ملی میٹر) ریکارڈ کرنے والا شہر بھی رہا
ملک بھر میں ماہانہ اوسط درجہ حرارت 11.92 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا، جو معمول سے 0.69 ڈگری زیادہ تھا۔ دن کے اوقات میں گرمی نے ریکارڈ توڑے سندھ کے شہر مٹھی میں 29 جنوری کو تپش 32.5 ڈگری تک پہنچ گئی۔ یہ صرف ایک شہر کی کہانی نہیں، بلکہ پورے ملک میں رات کے اوقات بھی درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہا۔
ماہرین کے مطابق، یہ رجحان صرف ایک مہینے تک محدود نہیں، بلکہ موسمیاتی تبدیلی کا طویل المیعاد اثر ہے جو زراعت، پانی کے ذخائر، اور ماحولیاتی توازن کو تہہ و بالا کر سکتا ہے
زرعی شعبہ پہلے ہی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ گندم اور ربیع کی فصلیں بارشوں کی کمی اور گرمی کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ دریاؤں اور زیرزمین پانی کی سطح پر دباؤ بڑھنے سے پانی کی قلت کے بحران نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ساتھ ہی، موسمیاتی آفات جیسے سیلاب، خشک سالی، اور گرمی کی لہروں کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے
ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ جنگلات کی کٹائی اور صنعتی آلودگی نے ماحولیاتی توازن کو مزید بگاڑا ہے، جس کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع اور آبی ذخائر تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں
اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پانی کے ذخائر کو جدید خطوط پر استوار کرے، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دے، اور موسمیاتی آفات کے لیے ہنگامی منصوبہ بندی کرے
عوامی سطح پر شجرکاری اور ماحولیاتی تحفظ کے پروگراموں کو ترجیح دینے سے ماحول کو بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے یہ وقت محض رپورٹس لکھنے یا تقریریں کرنے کا نہیں، بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔ اگر آج ہم نے ٹھوس قدم نہ اٹھائے، تو آنے والے برسوں میں معیشت، صحت، اور ماحول کے بحران ہماری ترقی کی راہیں روک دیں گے۔
موسمیاتی تبدیلی اب ایک "مستقبل کا خطرہ” نہیں، بلکہ موجودہ حقیقت ہے جس کا مقابلہ اجتماعی عزم اور فوری عمل سے ہی کیا جا سکتا ہے