پشاور سےخالد خان کی تحریر: ۔
کبھی خیبرپختونخوا میں عوامی طاقت کی علامت سمجھی جانے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اب سیاسی سکڑاؤ اور عوامی بیگانگی کے دور سے گزر رہی ہے۔ حالیہ پشاور کنونشن نے اس تبدیلی کو نہایت واضح انداز میں نمایاں کر دیا—ایک ایسا اجتماع جو روایتی گراؤنڈ جلسوں کے بجائے ایک شادی ہال میں منعقد ہوا، اور جس میں بمشکل 800 سے 900 افراد شریک ہوئے۔
یہ وہی جماعت ہے جس نے خیبرپختونخوا میں تین بار حکومت قائم کی، جو عوامی اُمنگوں اور تبدیلی کے وعدوں کے ساتھ ابھری، اور جس نے ماضی میں لاکھوں کے جلسے کیے۔ لیکن آج اس کی سیاست موسیقی، کھانوں، سوشل میڈیا فوٹیجز اور مصنوعی ہجوم پر انحصار کرتی نظر آتی ہے۔
سیاسی تحریک کی جگہ اب مارکیٹنگ کیمپین نے لے لی ہے، جہاں اصل موضوعات پس منظر میں چلے گئے ہیں، اور فوٹو سیشنز، ٹرینڈز اور موبائل کیمروں کے سامنے اداکاری کو فوقیت حاصل ہے۔
یہ کنونشن محض ایک ناکام اجتماع نہیں تھا، بلکہ ایک علامتی اعلان تھا—کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی سیاست اب عوامی نہیں رہی، بلکہ ایک محدود اور بمشکل قائم شو بن چکی ہے۔ جوش و خروش صرف کیمرے کے سامنے تھا، جبکہ ہال کے اندر خالی کرسیاں اور سناٹے نے سب کچھ کہہ دیا۔
یہ زوال صرف پی ٹی آئی کا نہیں، بلکہ ہر اس سیاسی رویے کا ہے جو حقیقت کے بجائے تاثر پر سیاست کرتا ہے۔ جب جماعتیں مہنگائی، بیروزگاری، امن و امان اور بنیادی سہولیات جیسے عوامی مسائل سے منہ موڑ کر نعرہ بازی، خودنمائی اور انا پرستی کو شعار بناتی ہیں، تو سیاست ایک تماشا بن کر رہ جاتی ہے جس کی زندگی چند گھنٹے کی سوشل میڈیا وائرل پوسٹ تک محدود رہ جاتی ہے۔
عوام اب جان چکے ہیں کہ تبدیلی کے نعرے، سیاسی گیت، اور مصنوعی ہجوم سب خریدا گیا تماشہ ہے۔ وہ وقت گزر چکا جب رنگین لفاظی اور سٹیج کی چمک دمک ووٹ دلوا سکتی تھی۔
سیاست اب دوبارہ سنجیدگی مانگ رہی ہے، پختگی، دیانت، اور اصل خدمت کا مطالبہ کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے لیے لمحہ فکریہ یہی ہے: یا تو وہ خوداحتسابی کی طرف جائے اور عوامی سیاست کی طرف لوٹے، یا پھر مزید سکڑ کر شادی ہالوں تک محدود رہ جائے۔
یہ فیصلہ اب عوام نے کرنا ہے کہ وہ تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں یا تبدیلی۔