خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کے بعد بلند و بانگ دعوے، وعدے اور خواب عوام کو دکھائے گئے، مگر 2025 کے آغاز میں کی جانے والی ایک غیر جانب دار عوامی رائے شماری نے ان سب پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ گیلپ پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ، جو فروری اور مارچ کے مہینوں میں خیبر پختونخوا کے تمام ساتوں ڈویژنز — پشاور، مالاکنڈ، ہزارہ، کوہاٹ، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان — میں کی گئی، ایک ہوشربا تصویر پیش کرتی ہے، جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔
گیلپ پاکستان، جو گیلپ انٹرنیشنل سے منسلک ایک خالصتاً پاکستانی تحقیقی ادارہ ہے اور جس کا امریکہ میں موجود گیلپ انکارپوریٹڈ سے کوئی تعلق نہیں، برسوں سے پاکستان میں سماجی، سیاسی اور معاشی رویوں پر تحقیق کا معتبر حوالہ ہے۔ اس سروے میں صوبے بھر سے تین ہزار مرد و خواتین سے آمنے سامنے ملاقاتوں میں ان کی رائے لی گئی، اور نتائج 95 فیصد اعتماد اور ، 2 تا 3 فیصد کی ممکنہ غلطی کے ساتھ مرتب کیے گئے۔
رپورٹ واضح کرتی ہے کہ خیبر پختونخوا کی عوام کو بنیادی سہولیات کی دستیابی میں سنگین مسائل درپیش ہیں۔ اگرچہ 74 فیصد افراد کہتے ہیں کہ انہیں پینے کے صاف پانی اور تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل ہے، مگر صحت کی سہولت صرف 63 فیصد افراد کو میسر ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں اور جنوبی خیبر پختونخوا میں صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ گیس کی عدم دستیابی 66 فیصد افراد کے لیے مسئلہ ہے، جبکہ بجلی جیسی بنیادی سہولت بھی 49 فیصد لوگوں کو یا تو میسر نہیں یا انتہائی ناقص انداز میں فراہم کی جا رہی ہے۔ نوجوانوں کے لیے عوامی سہولیات کی حالت بھی مایوس کن ہے—پارک، لائبریری اور کمیونٹی مراکز جیسی سہولتیں بالترتیب 77، 81 اور 70 فیصد شہریوں کو حاصل ہی نہیں۔
ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی پی ٹی آئی کی موجودہ صوبائی حکومت عوامی اعتماد پر پورا نہیں اتری۔ اگرچہ گزشتہ 13 برسوں میں پارٹی کو سڑکوں، ٹرانسپورٹ اور عمومی ترقی کے کچھ کریڈٹ ملتے رہے، لیکن حالیہ حکومت کے متعلق عوامی تاثر شدید منفی ہے۔ 2024 کے انتخابات کے بعد اب تک صرف 43 فیصد افراد نے نئی سڑکوں کے منصوبے دیکھے، 37 فیصد نے ٹرانسپورٹ میں بہتری نوٹ کی، اور محض 40 فیصد نے کسی بھی قسم کی ترقی کا مشاہدہ کیا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اپنے ووٹرز میں سے بھی 49 فیصد نے تسلیم کیا کہ ان کے علاقوں میں کوئی ترقیاتی سرگرمی نہیں ہو رہی۔
کرپشن اور شفافیت کے سوال پر بھی حکومت کو عوامی اعتماد حاصل نہیں ہو سکا۔ 52 فیصد افراد کا ماننا ہے کہ ترقیاتی فنڈز بدعنوانی کی نذر ہوئے، اور صرف 32 فیصد کو لگتا ہے کہ یہ فنڈز درست طریقے سے استعمال ہوئے۔ 71 فیصد افراد—جن میں 62 فیصد پی ٹی آئی کے حامی بھی شامل ہیں—اس بات کے خواہاں ہیں کہ گزشتہ ادوار کے بڑے منصوبوں میں ہونے والی ممکنہ کرپشن کی باضابطہ تحقیقات کی جائیں۔ 48 فیصد لوگوں کے مطابق سرکاری اداروں میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے، اور 40 فیصد کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں کرپشن کی شرح پنجاب سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
معاشی صورتحال اور روزگار کے حوالے سے عوامی ناپسندیدگی مزید شدید ہے۔ 59 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ 67 فیصد حکومت کو معاشی مواقع پیدا کرنے میں ناکام سمجھتے ہیں۔ حکومتی منصوبوں سے لاعلمی کا عالم یہ ہے کہ 50 فیصد سے زائد افراد کو "بزہب”، "باچا خان غربت مٹاؤ پروگرام” یا "LACIP” جیسے منصوبوں کا سرے سے علم ہی نہیں۔ 73 فیصد کا ماننا ہے کہ سرکاری نوکریاں میرٹ پر نہیں بلکہ تعلقات اور سفارش سے دی جا رہی ہیں۔
امن و امان کے معاملے میں عوام کا ردعمل ملا جلا ہے۔ اگرچہ 58 فیصد افراد سیکیورٹی سے مطمئن نظر آتے ہیں، لیکن دہشت گردی کا خوف اب بھی 57 فیصد لوگوں کے ذہنوں پر سایہ کیے ہوئے ہے، خاص طور پر جنوبی خیبر پختونخوا میں جہاں یہ شرح 72 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ پولیس پر اعتماد کی شرح بھی محدود ہے اور بعض اضلاع، خصوصاً کرم، میں شکوے بدستور موجود ہیں۔
عدالتی نظام پر عوامی اعتماد بتدریج ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ 70 فیصد لوگ عدالتی فیصلوں میں تاخیر سے نالاں ہیں، 50 فیصد عدلیہ کو کرپٹ سمجھتے ہیں، اور 53 فیصد کو یقین ہے کہ عدالتیں سیاسی اثر و رسوخ کے زیرِ اثر فیصلے کرتی ہیں۔ اس کے برعکس، 84 فیصد لوگ جرگہ نظام کو ایک قابلِ قبول متبادل سمجھتے ہیں، اور 70 فیصد اسے منصفانہ قرار دیتے ہیں۔
نوجوانوں کی سیاسی شمولیت پر اگرچہ 70 فیصد لوگ مطمئن ہیں، لیکن عملی تربیت اور ترقیاتی منصوبوں سے متعلق رائے مثبت نہیں۔ محض 46 سے 52 فیصد نوجوانوں نے ان پروگراموں پر اطمینان ظاہر کیا۔
سیاسی قیادت کے حوالے سے، صحت کارڈ سکیم کو عوامی سطح پر سراہا گیا، 83 فیصد نے اس کے مثبت اثرات کا اعتراف کیا، جن میں 88 فیصد پی ٹی آئی کے ووٹرز بھی شامل ہیں۔ مگر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی کارکردگی پر صرف 38 فیصد افراد نے انہیں اپنے پیشروؤں سے بہتر قرار دیا۔ 47 فیصد افراد کی رائے میں وزیراعلیٰ گنڈاپور کو ہٹا کر عمران خان کسی نئے شخص کو صوبے کی قیادت سونپیں تو بہتر ہوگا۔ جبکہ 50 فیصد افراد کی رائے میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کی کارکردگی خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سے بہتر ہے۔
وفاق اور صوبے کے تعلقات کے حوالے سے بھی دلچسپ نتائج سامنے آئے۔ 85 فیصد افراد چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی حکومت وفاق کے ساتھ تعاون کرے، لیکن حکومت کی پالیسی مسلسل محاذ آرائی، احتجاج اور مظاہروں پر مبنی رہی۔ 60 فیصد افراد نے کہا کہ صوبائی حکومت نے احتجاجی سیاست میں قیمتی وقت ضائع کیا، جسے عوامی خدمت پر صرف کیا جانا چاہیے تھا۔
اس سروے کا لب لباب یہی ہے کہ خیبر پختونخوا کی عوام ایک گہرے اضطراب اور عدم اطمینان کا شکار ہے۔ عوامی رائے بتاتی ہے کہ وعدے پورے نہیں ہوئے، نظام میں شفافیت کا فقدان ہے، انصاف اور روزگار عام آدمی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت کے لیے یہ ایک انتباہ ہے کہ اگر فوری طور پر اصلاحات نہ کی گئیں، تو یہ عوامی بے زاری آنے والے وقت میں مخالف سیاسی نتائج بھی لا سکتی ہے۔