خیبرپختونخوا (کے پی) حکومت نے صوبے میں تعلیمی اداروں کی نجکاری کے عمل کو وسعت دیتے ہوئے اب 55 سرکاری کالجز کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ محکمہ اعلیٰ تعلیم کے مطابق، اس فہرست میں ڈیرہ اسماعیل خان کے 7 کالجز سرفہرست ہیں۔ یہ اقدام مالی بوجھ کم کرنے، تعلیمی معیار بہتر بنانے، اور انتظامی کارکردگی بڑھانے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔ تاہم، اس فیصلے نے ماہرین تعلیم اور طلبہ میں تحفظات کو بھی جنم دیا ہے۔
نجکاری کا مقصد سرکاری اداروں پر مالی دباؤ کو کم کرنا اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے جدید سہولیات، بہتر اساتذہ کی بھرتی، اور نصاب میں جدت لانا ہے۔ محکمہ اعلیٰ تعلیم کے مطابق، یہ کالجز نجی اداروں کے ساتھ پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل کے تحت چلائے جائیں گے، جس سے حکومتی وسائل پر انحصار کم ہوگا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے 7 کالجز کی نجکاری سے مقامی سطح پر تعلیمی رسائی بڑھانے کی امید ہے، کیونکہ یہ علاقہ تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے۔
تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ نجکاری سے فیسوں میں اضافہ ہوگا، جو غریب طلبہ کے لیے تعلیم کو ناقابل رسائی بنا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پہلے ہی سکولوں کی نجکاری کے تجربات متنازع رہے ہیں، جہاں معیار کی بجائے منافع خوری کو ترجیح دینے کی شکایات سامنے آئیں۔ ماہرین تعلیم کا مطالبہ ہے کہ نجکاری سے قبل شفاف پالیسی بنائی جائے اور طلبہ کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
یہ فیصلہ صوبے کے تعلیمی منظرنامے میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ نجی شعبہ جدید ٹیکنالوجی اور بہتر وسائل لا سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ فیسوں کے ڈھانچے، اساتذہ کی ملازمتوں، اور تعلیمی معیار کی نگرانی کے لیے سخت ضابطے ضروری ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس عمل میں تمام فریقین کو اعتماد میں لے اور نجکاری کے فوائد کو یقینی بنانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے تاکہ تعلیم سب کے لیے قابل رسائی رہے۔