امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہم سعودی عرب کو باضابطہ طور پر اہم غیر نیٹو اتحادی قرار دے کر اپنے عسکری تعاون کو ایک نئی بلندی تک لے جا رہے ہیں، جو ان کے لیے بہت اہم ہے ۔
واشنگٹن: امریکی صدر نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اعزاز میں وائٹ ہاؤس میں عشائیہ دیا، اس موقع پر ایلون مسک اور کرسٹیانو رونالڈو بھی موجود تھے ۔
وائٹ ہاؤس میں بلیک ٹائی عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا امریکی صدر نے کہا کہ میں اب پہلی مرتبہ آپ کو یہ بتا رہا ہوں، کیونکہ وہ آج کی رات کے لیے اسے تھوڑا سا راز رکھنا چاہتے تھے’، یہ وہ درجہ ہے جو اس سے پہلے صرف 19 ممالک کو دیا گیا ہے ۔
اس حیثیت سے امریکا کے شریک ملک کو عسکری اور اقتصادی مراعات ملتی ہیں، مگر اس میں امریکا کی جانب سے کسی قسم کی سلامتی کی ضمانت شامل نہیں ہوتی ۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جون میں ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں نے سعودی عرب کو مزید محفوظ بنا دیا ہے ۔
اسی دوران، محمد بن سلمان نے اس سے قبل یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ امریکا میں سعودی سرمایہ کاری کو ایک کھرب ڈالر تک بڑھائیں گے، جبکہ اس سے پہلے مئی میں ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر 600 ارب ڈالر کا وعدہ کیا گیا تھا، تاہم انہوں نے کوئی تفصیلات یا ٹائم فریم نہیں بتایا ۔
امریکہ او سعودی عرب اہم دفاعی معاہدہ: ۔
امریکی میڈیا کے مطابق دونوں ممالک نے ایک تزویراتی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جو مشرقِ وسطیٰ میں روک تھام کی قوت کو مضبوط کرتا ہے، امریکی دفاعی کمپنیوں کے لیے سعودی عرب میں کام کرنا آسان بناتا ہے اور امریکی اخراجات میں کمی کے لیے سعودی عرب کی جانب سے نئے مشترکہ مالی تعاون کو یقینی بناتا ہے ۔
یہ معاہدہ بظاہر اس نیٹو طرز کے معاہدے سے کم تر ہے جس کی سعودی عرب نے ابتدا میں خواہش ظاہر کی تھی اور جسے امریکی کانگریس کی منظوری درکار ہوتی ۔
وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ ٹرمپ نے ایف-35 لڑاکا طیاروں کی مستقبل کی فراہمی کی بھی منظوری دے دی ہے اور سعودی عرب نے 300 امریکی ٹینک خریدنے پر رضامندی ظاہر کی ہے ۔
مملکت سعودیہ نے ان جدید طیاروں کے 48 یونٹس خریدنے کی درخواست کی ہوئی ہے، اگر یہ سودہ طے پا جاتا ہے تو یہ سعودی عرب کو ایف-35 کی پہلی امریکی فروخت ہو گی اور ایک بڑی پالیسی تبدیلی بھی ۔
محمد بن سلمان کا ابراہم معاہدوں کا حصہ بننے کا اعلان: ۔
محمد بن سلمان نے کہا کہ ان کا ملک ٹرمپ کے ابراہم معاہدوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتا ہے، لیکن پہلے فلسطینی ریاست کی جانب ایک واضح راستہ درکار ہے ۔
اوول آفس میں ٹرمپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے شہزادے نے کہا کہ ’ہم ابراہم معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہیں، لیکن ہم یہ بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ دو ریاستی حل کا واضح راستہ محفوظ ہو، ہم اس پر کام کریں گے تاکہ جلد از جلد مناسب حالات تیار کیے جا سکیں‘ ۔

