اسلام آباد (ارشد اقبال) وفاقی دارالحکومت میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا کے بیشتر ممالک اپنی سٹریٹیجک حکمت عملی یا تو تبدیل کر رہے ہیں یا اسے نئے سرے سے وجود دے کر اپنی پالیسی کی یکسر تبدیلی میں مشغول نظر آرہے ہیں۔چونکہ پاکستان میں دنیا کے دیگر بیشتر ممالک کی طرح گزشتہ کئی سالوں سے بحران پر بحران نے اٹھائے رکھا لیکن اس کے حل پر توجہ نہیں دی گئی۔گو کہ ہر حکومت نے اپنے تئیں تھوڑی بہت کوششیں ضرور کیں لیکن اسے اپنی ترجیحات نہ بنا سکے جس کی وجہ سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید بڑھتے چلے گئے اور اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب سب سے پہلے ملک و قوم کے مسائل کے حل کو ترجیح بنانا ناگزیر ہو چکا ہے ۔ لیکن کئی سال بعد اب نظر آنے لگا ہے کہ موجود اتحادی حکومت ملک و قوم کے مفاد کیلئے کمر بستہ ہو چکی ہے اور کیوں نہ ہوں اب اس کے بغیر اور کوئی دوسرا راستہ بھی نظر نہیں آ رہا ۔ آسان الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر موجود حکومت نے بھی ملکی مسائل کے حل میں گزشتہ حکومتوں کی طرح کوتاہی برتی تو اس کے بعد کوئی مائی کا لال بھی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر نہیں پائے گا۔
ایس سی او ایک کثیرالجہتی تنظیم ہے جو اپنے رکن ممالک کے درمیان سلامتی، اقتصادی اور سیاسی محاذوں پر تعاون کے مزید فروغ کے لیے قائم کی گئی ہے۔یہ پلیٹ فارم رکن ممالک کے درمیان تجارت ، انسداد دہشت گردی، انفرااسٹرکچر کی ترقی سمیت دیگر باہمی تعاون کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ پاکستان کے لیے یہ اجلاس ایک منفرد سفارتی موقع ہے بالخصوص ایک ایسے عالمی منظرنامے کئی ممالک ایک دوسرے نبردآزما ہیں اور ان کے انہی جنگوں کے باعث جہاں وہ خود متاثر ہو رہے ہیں وہاں دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہو اہے ۔
چین کا بڑھتا عالمی اثرورسوخ، روس کا ایشیا کی جانب جھکاؤ اور وسطی ایشیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت، بھارت کی جانب سے اس اہم اجلاس میں شرکت پاکستان کو موقع فراہم کرتی ہے کہ ایس سی او کے ذریعے عالمی سطح پر خود کو ثابت کرے۔ پاکستان اب تنظیم کے تمام مالک کے ساتھ اپنے روابط اور تعلقات کو نئی جہت تک لے جانے کی کوششیں شروع کریں تو بیشتر مسائل تنظیم کے اگلے اجلاس تک اگر ختم نہ بھی ہوں تو کم ضرور ہونگے۔
پاکستان کی علاقائی خصوصیت ہمیشہ سے اس کا ایک جغرافیائی سیاسی اثاثہ رہا ہے لیکن اندرونی چیلنجز کے باعث بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنی علاقائی خصوصیت کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھا پایا ہے۔ اب ایس سی او جیسے کثیرالجہتی پلیٹ فارم میں متحرک کردار کرکے پاکستان اقتصادی فوائد اور سفارتی سرمایہ دونوں حاصل کرسکتا ہے۔لیکن اس کا انحصار ایس سی او کی حقیقی کامیابی پر ہے ۔معمول کے مطابق صرف یہ کہنا کہ سمٹ بہت کامیاب رہی اب یہ کافی نہیں ہوگا ۔
پاکستان کو اس وقت دوبارہ سر اٹھاتی دہشتگردی،سیاسی و معاشی عدم استحکام، افراطِ زر، کم ہوتے ہوئے غیرملکی ذخائر ، سُست شرحِ نمو،سیاسی جماعتوں کے درمیان سخت تناو،بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے ریاستی اداروں پر سخت تنقید،بے روزگاری، عوام مسا ئل بالخصوص بڑھتی مہنگا ئی ،پٹرولیم، مصنوعات کی قیمتیں گو کہ کم ہونے لگی ہیں لیکن 320 روپے فی لٹر سے کم ہوکر 250 روپے فی لٹر تک آنے کے باوجود اس کے مثبت اثرات سے عوام آج بھی کوسوں دور ہیں ۔ جیسے سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے جسے حل کرنا ناگزیر ہے اور اس کے حل میں بھی شنگھا ئی تعاون تنظیم کا اسلام آباد کا اجلاس اہم کردار اد کرسکتا ہے ۔مثلا ہم پٹرولیم مصنوعات ،گندم کی خریدار ی کیلئے روس سے تعلقات بڑھا کر اپنا یہ ایک بڑا مسئلہ اگر حل نہیں بھی کر سکتے تو اس بحران میں کمی ضرور لا سکتے ہیں ۔
اسلام آباد میں منعقدہ ایس سی او اجلاس کی وجہ سے اس تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان نئی معاشی شراکت داریوں کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وہ مقام ہے کہ جب ایس سی او کے معاشی پہلو کارگر ہوتے ہیں۔ رکن ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرکے پاکستان علاقائی مارکیٹس، انفرااسٹرکچر کی سرمایہ کاری اور بڑھتی ہوئی تجارتی ترقی، بالخصوص چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔تاہم پاکستان کے اقتصادی مفادات صرف چین تک محدود نہیں ہونے چاہییں۔ پاکستان وسط ایشیائی ممالک اور روس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت دے سکتا ہے اور اقتصادی ترقی اور تنوع کو فروغ دے سکتا ہے۔بھارت کے ساتھ بھی اگر بات چیت کا سلسلہ ممکن ہے تو اس میں بھی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے بشرطیکہ کہ اس میں دونوں ممالک برابری کی بنیاد پر تعلقات کی بحالی پر متفق ہوں ۔ یہ ضروری نہیں کہ جے شنکر کی پاکستان آمد کے دوران ہی تمام دوریاں ختم ہوں لیکن ایس سی او کے ذریعے اس طرح کے مسائل کے حل کیلئے ایک روڈ میپ بنایا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا ناممکن بھی ہرگز نہیں ۔ پاکستان کی اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کو مدعو کرنے کی دعوت اور پھر اس میں بھارت کی جانب سے شرکت سے اشارہ ملتا ہے کہ اسلام آباد وسیع علاقائی فریم ورک کے تحت دہلی کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر بنانے کے لیے رضامند ہے اور بھارت کی جانب سے ایس سی او میں شرکت بھی مثبت اشارہ ہے ۔یہ نئی معاشی شراکت داریاں پاکستان کو موجودہ بحران کی صورت حال سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس طرح اقتصادی تعاون پاکستان کے وسیع تر جغرافیائی سیاسی اہداف سے منسلک ہے کیونکہ مضبوط اقتصادی تعلقات خطے میں ملک کی سٹریٹجک اہمیت کو تقویت دیں گے۔
ایک اور اہم ترین معاملہ دہشتگردی ہے اور اس معاملے میں ہمیں سب سے بڑا خطرہ افغانستان کی جانب سے درپیش ہے ۔افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان علاقائی عدم استحکام کا باعث بنا ہوا ہے، ایس سی او اجلاس کے ذریعے پاکستان دیگر رکن ممالک کے ساتھ اس سے وابستہ سلامتی کے مسائل پر تعاون کرسکتا ہے۔ پاکستان جو سرحد پار دہشت گردی اور مہاجرین کو پناہ دینے کا خمیارہ بھگت رہا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ علاقائی سلامتی کے مذاکرات میں اپنا متحرک کردار ادا کرے۔ایس سی او ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پاکستان، چین سمیت اپنے ہمسایہ ممالک، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ علاقائی استحکام کو فروغ دینے کے لیے کام کرسکتا ہے جبکہ یہ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
ایس سی او کی صورت میں پاکستان کو ایسے وقت میں ایک نادر سفارتی موقع میسر آیا ہے کہ جب اسے اقتصادی اور سلامتی کے حوالے سے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کس طرح بھارت کو ہینڈل کرتا ہے اور بھارتی وزیر خارجہ کا اجلاس سے خطاب اور پاکستان کے دو روزہ دورے میں مصروفیات کو مدنظر رکھنا ہوگا ۔مختصر یہ کہ نہ صرف پاکستان کے بیشتر مسا ئل سمیت علاقا ئی اور خطے کے مسا ئل کے حل کے لیے ایک بہترین کردار ادا کرسکتا ہے بلکہ اس سے رکن ممالک کے عوام کے درمیان رابطوں کو مزید فروغ بھی دیا جا سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد زبان زد عام ہوگا کہ پاکستان میں شنگھاءی تعاون تنظیم کا اجلاس کامیاب ہوا ہے۔