ہر سال ذی الحجہ کی 8 تاریخ کو حج کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے، اور عرفات کے دن یعنی 9 ذی الحجہ کو یہ اپنے روحانی عروج پر پہنچتا ہے۔ سفید احرام میں ملبوس، تلبیہ کی گونج میں لپٹے یہ قافلے اللہ کے حضور جھکنے، اپنے گناہوں کی معافی مانگنے، اور روحانی طہارت حاصل کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔یہ سفر محض ایک عبادت نہیں، بلکہ انسان کی ذات کا، اس کے نفس کا، اس کی خواہشات کا اور اس کے ایمان کا امتحان بھی ہوتا ہے۔
تاریخی پس منظرحضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت
حج کی بنیاد ہزاروں سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے مثال اطاعت اور قربانی پر رکھی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ وہ اپنے بیٹے کو قربان کریں، اور وہ اس حکم کی تعمیل کے لیے تیار ہو گئے۔ اللہ نے اس اخلاص پر حضرت اسماعیلؑ کی جان بچا کر قربانی کا تصور ہمیشہ کے لیے قائم کر دیا۔
اسی طرح خانہ کعبہ کی تعمیر بھی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے مل کر کی، اور اللہ کے حکم پر حج کے لیے لوگوں کو پکارا
"وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالاً…”
(الحج 27)یعنی لوگوں کو حج کی طرف بلاؤ، وہ تیرے پاس آئیں گے۔
احرام ۔۔۔برابری کی علامت
حج کی ابتدا احرام باندھنے سے ہوتی ہے۔ مرد سفید دو چادروں میں، بغیر سلے لباس میں ملبوس ہوتے ہیں، جبکہ عورتیں سادہ لباس میں۔ یہ لباس انسان کو اس کی اصل حقیقت یاد دلاتا ہے کہ وہ محض مٹی سے بنا ایک عاجز بندہ ہے۔ نہ کوئی امیر، نہ غریب، نہ بادشاہ، نہ مزدور سب اللہ کے حضور برابر ہیں۔ یہ ایک ایسا لباس ہے جو دنیاوی حیثیت کو پیچھے چھوڑ کر صرف بندگی کا اظہار کرتا ہے۔
حج کے ارکان۔۔ ایک روحانی ریہرسل
حج کے مختلف مناسک طواف، سعی، وقوفِ عرفات، مزدلفہ میں قیام، رمی جمار، قربانی ہر ایک عمل ایک گہرا پیغام رکھتا ہے۔
طواف۔۔ خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنا اللہ کی وحدانیت اور مرکزیت کو تسلیم کرنا ہے۔
سعی ۔۔۔صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنا حضرت ہاجرہؑ کی جدوجہد کی یاد ہے۔ یہ ہمیں صبر، تلاش، اور ماں کی محبت کا درس دیتا ہے۔
وقوفِ عرفات۔۔۔یہ حج کا سب سے اہم رکن ہے۔ یہاں حجاج اللہ کے حضور عاجزی کے ساتھ دعائیں کرتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں، اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اسی دن کو "یوم عرفہ” کہا جاتا ہے، جو حج کی روحانی معراج ہے۔
مزدلفہ اور منیٰ ۔۔۔یہاں قیام، عبادات اور رمی کے ذریعے شیطان کو کنکریاں مارنا محض ایک رسم نہیں، بلکہ انسان کو یہ یاد دلاتا ہے کہ زندگی بھر اسے شیطانی وسوسوں کے خلاف لڑنا ہے۔
قربانی۔۔۔ حضرت ابراہیمؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جانور کی قربانی دی جاتی ہے، جو اخلاص اور اللہ کے حکم پر عمل کی علامت ہے۔
حج اور اتحادِ امت
حج شاید دنیا کا واحد موقع ہے جب لاکھوں انسان بغیر کسی فرق کے ایک ہی مقام پر جمع ہوتے ہیں۔ مختلف زبانیں، رنگ، ثقافتیں اور قومیتیں ایک ہی لباس اور ایک ہی نیت کے ساتھ اللہ کے در پر حاضر ہوتی ہیں۔ یہ منظر انسانیت اور اسلام کے آفاقی پیغام کی عکاسی کرتا ہے۔ حج ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے، اور ہمیں ایک دوسرے کے درد، خوشی اور فکر میں شریک ہونا ہے۔
جدید دور میں حج۔۔۔ ٹیکنالوجی اور نظم و ضبط
آج کا حج 1400 سال پرانے جذبے کے ساتھ، لیکن جدید سہولیات اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ادا کیا جا رہا ہے۔ سعودی حکومت نے حاجیوں کے لیے اعلیٰ درجے کے انتظامات کیے ہیں، جن میں جدید ٹرانسپورٹ، سمارٹ کارڈز، ایپلیکیشنز، اور ہجوم کی نگرانی کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال شامل ہے۔اس کے علاوہ، وہ لوگ جو حج پر نہیں جا سکے، سوشل میڈیا، یوٹیوب، ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے اس روحانی منظر سے جُڑے رہتے ہیں۔ لاکھوں افراد تلبیہ کی گونج، خانہ کعبہ کا طواف، اور عرفات کی دعاؤں کو اپنی سکرینوں پر دیکھ کر روتے اور اپنے دلوں میں حج کی تمنا جگاتے ہیں۔
روحانی اصلاح۔۔۔۔ایک نیا آغاز
حج صرف جسمانی مشقت یا ظاہری عبادت نہیں، بلکہ یہ انسان کے نفس کی اصلاح، کردار کی پاکیزگی اور ایک نئی زندگی کی شروعات کا نام ہے۔ جو خوش نصیب یہ عبادت ادا کرتے ہیں، وہ واپس آ کر ایک نئی روحانی روشنی کے ساتھ زندگی گزارنے کا عزم کرتے ہیں۔ یہ سفر درحقیقت اللہ سے ملاقات، توبہ، اور بخشش کا ذریعہ بنتا ہے۔
خواتین کا کردار اور روحانیت
خواتین کا حج میں کردار بھی قابلِ ستائش ہے۔ حضرت ہاجرہؑ کی جدوجہد کو حج کا مستقل حصہ بنا دینا اس بات کی علامت ہے کہ دینِ اسلام میں عورت کی قربانی، اس کے جذبے اور اس کے عمل کو وہی مقام حاصل ہے جو مردوں کو۔ آج بھی لاکھوں خواتین مکمل وقار اور عقیدت کے ساتھ حج کے فرائض ادا کرتی ہیں، اور اپنے روحانی سفر کو مکمل کرتی ہیں۔
حج کا پیغام۔۔۔ امن، خلوص، اور انسانیت
حج ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دنیا فانی ہے، اصل زندگی آخرت کی ہے۔ ہمیں اپنی ذات کو، اپنے عمل کو، اور اپنے رویے کو بہتر بنانا ہے۔ حج کا پیغام یہ ہے کہ۔۔۔
اپنے دل کو حسد، غرور، اور نفرت سے پاک کرو۔
دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو۔
معاشرے میں خیر، عدل، اور محبت کا پیغام عام کرو۔
اور سب سے بڑھ کر، ہر کام میں اللہ کی رضا کو اولین ترجیح دو۔
اختتامیہ ۔۔۔۔لبیک کی صداؤں میں چھپا پیغام
جب حاجی لبیک اللھم لبیک کہتے ہیں تو گویا وہ اعلان کرتے ہیں
"اے اللہ! ہم حاضر ہیں، تیرا حکم ماننے کو تیار ہیں۔”
یہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک عہد ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی مرضی کے مطابق گزاریں گے۔ آئیں ہم سب، خواہ وہاں موجود ہوں یا نہیں، دل میں حج کا جذبہ پیدا کریں، اپنی نیتوں کو صاف کریں، اور اس عظیم عبادت سے سبق لے کر اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک!