اسلام آباد:( افضل شاہ یوسفزئی) پاکستان کا نظامِ تعلیم تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، جس کا انکشاف پلاننگ کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں ہوا ہے۔ یہ صورتحال ہر محبِ وطن پاکستانی کے لیے گہری تشویش اور بے چینی کا باعث بن رہی ہے۔ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیمی نظام زوال کا شکار ہے۔ اگر خیبرپختونخوا کے 38 اضلاع میں تعلیمی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو صرف ہری پور اور چترال کسی حد تک بہتر نظر آتے ہیں اور اس بہتری کی بنیادی وجہ وہاں کی متحرک کمیونٹی ہے، نہ کہ حکومتی اقدامات۔ حکومتی کارکردگی اس حوالے سے تقریباً صفر دکھائی دیتی ہے۔
تعلیم کے زوال کیساتھ ساتھ جامعات میں ہراسانی کے واقعات بھی تشویشناک حد تک بڑھ رہے ہیں، جو نہ صرف والدین بلکہ طالبات کے لیے بھی خوف و ہراس کا باعث بن رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ملاکنڈ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے مبینہ طور پر ایک پروفیسر پر ہراسانی کا الزام عائد کیا، جس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملزم کے موبائل فون سے ڈیٹا بھی قبضے میں لے لیا ہے، جس میں قابلِ اعتراض مواد موجود ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، بلکہ اس سے قبل بھی کئی جامعات میں ہراسانی کے کیسز سامنے آ چکے ہیں، مگر ان پر مؤثر کارروائی نہ ہونے کے باعث یہ ناسور مزید پھیلتا جا رہا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے کارروائی تو کی، مگر سوال یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ وزیراعلیٰ صاحب یونیورسٹی کی چانسلرشپ اپنے پاس رکھنے کے لیے تو قانون منظور کر لیتے ہیں، مگر تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور درندہ صفت پروفیسروں کے خلاف کارروائی کا سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اکثر جامعات میں شکایات درج ہونے کے باوجود مجرمان کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جاتی، جس سے انہیں مزید شہہ ملتی ہے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے، جو علم و آگہی کے مراکز ہونے چاہئیں، وہی طالبات کے لیے غیر محفوظ بنتے جا رہے ہیں۔ ہراسانی کے خلاف قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو والدین اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنے سے گریز کریں گے، جو خواتین کی تعلیم اور خودمختاری کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نہ صرف تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے، بلکہ جامعات میں ہراسانی کے بڑھتے واقعات کے سدباب کے لیے بھی سخت قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ تمام تعلیمی اداروں میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں فعال کی جائیں اور شکایات درج کروانے کے عمل کو سہل اور محفوظ بنایا جائے، تاکہ متاثرہ طالبات بلا خوف و خطر اپنی آواز بلند کر سکیں۔ اگر اب بھی اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، اور ہماری تعلیمی ترقی مزید پستی کا شکار ہو جائے گی۔
جمعرات, فروری 20, 2025
بریکنگ نیوز
- چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستانی ٹیم کو 60 رنز سے ہرادیا
- وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات، ٹیکس کیسز میں میرٹ پر جلد فیصلوں کی استدعا
- لیفٹیننٹ جنرل منیر افسر کو چیئرمین نادرا کے عہدے پر بحال کردیا گیا
- آرمی چیف کا برطانیہ کا سرکاری دورہ، علاقائی استحکام کانفرنس میں شرکت کریں گے
- ماہ رمضان،چاروں صوبوں میں چینی 130روپے فی کلو فروخت کرنے کا فارمولا طے پا گیا
- پاکستان نے افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی خاتمے کےلیے اقوام متحدہ سے تعاون کی اپیل کر دی
- پارہ چنار میں پیٹرول اور ڈیزل 1200 روپے فی لیٹر فروخت ہونے لگا
- بلوچستان میں دہشت گردوں نے پنجاب جانیوالی بس کے 7 مسافر قتل کر دئیے، تمام شہید پنجاب کے رہنے والے تھے