بلوچستان کی سیکیورٹی صورتحال کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے،خیبر نیوز کے پروگرام کراس ٹاک میں ان انکشافات پر بات چیت کی گئی ہے
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی سید علی شاہ نے پروگرام کراس ٹاک میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پچھلے تیس سال سے دہشت گردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ بلوچستان کی نئی حکومت نے ناراض بلوچ رہنماوٗں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ لیکن زمین پر ایسے اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں جس سے لگیں کہ بلوچستان میں امن کے قیام کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ بیانات اور عمل میں فرق ہوتا ہے۔ ماضی میں سرفراز بگٹی نے ہمیشہ ملٹری اپریشن پر زور دیا ہے۔ اس وقت ماضی کے برعکس فی حال بلوچستان میں امن زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ آئینی، قانونی، سیاسی اور معاشی کا ہے جب تک یہ مسئلے حل نہیں ہوتے تب تک بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں۔تحریک طالبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور داعش گروپ کی موجوددگی پختون ڈومیناٹڈ علاقوں میں زیادہ ہیں اور وہاں پر کارروائی کرتے ہیں جب کہ بلوچ مسلح گروپس بلوچ علاقوں میں کارروائی کرتے رہتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں اور بلوچ گروپس میں روابط ہیں اور ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے رہتے ہیں کیوں کہ ان کا ٹارگٹ ایک ہی ہے۔
پروگرام کراس ٹاک میں بات کرتے ہوئے رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ بہت عرصے سے دہشت گرد تنظمیں اور بلوچ مسلح تنظیمیں ایک ساتھ کام کررہی ہیں بلکہ بلوچ کے پانچ گروپ ٹی ٹی پی میں شامل ہوگئے ہیں۔ بلوچستان میں انسرجنسی کافی عرصے سے رہی ہے لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ یہ گروپس دہشت گرد تنظیموں سے الحاق کررہے ہیں۔ ٹی ٹی پی بلوچستان کے نوجوان کو راعب کرنے کیلئے اپنی لیٹریچر بلوچ زبان میں بھی شائع کررہی ہے۔ پھر بات چیت کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ دہشت گرد اور بلوچ تنظیموں کا اتحاد حکومتِ پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔جس کو حل کرنا لازمی ہے۔
حسن خان کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت کو ایک مکمل پلان بنانا پڑیگا۔ انہوں نے کہا کہ ہر سیاسی حکومت نے بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی کہ لیکن ہر حکومت ناکام رہی ہے، ماضی میں بلوچستان سے کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے،سیاسی جماعتوں کو بااختیار کرنا ہوگا، اعتماد کو بحال کرنا ہوگا، اور بلوچستان کو وسائل اور اپنے حقوق دینے سے ہی یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔مزید کہا گیا کہ ٹی ٹی پی کو وقتی طور پر بلوچ تنظیموں کی سپورٹ سے فائدہ مل سکتا ہے لیکن نہیں لگتا کہ انہیں اس سے لمبے عرصے کیلئے کوئی مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مختلف علاقائی اور بین الاقوامی ممالک ملوث ہے۔ امریکہ بھی اس علاقے کی جغرافیائی اہمیت کو سمجھتاہے،لیکن بدقستمی سے بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔