پاکستانی معیشت میں گزشتہ تین برس میں جس قدر تیزی سے تبدیلی ہوئی ہے، وہ حیر ت انگیز ہے۔ 2022ء سے شروع ہونے والا سیاسی عدم استحکام اگرچہ ابھی برقرار ہے مگر سال 2022ء میں پاکستان کو جن معاشی چیلنجز کا سامنا تھا اور ڈیفالٹ کی باتیں کی جارہی تھیں۔ پاکستان نے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی کوشش کی تو سیاسی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ آئی ایم ایف کو خط لکھے گئے کہ پاکستان کو مشروط قرض دیا جائے۔ آئی ایم ایف نے بہ ظاہر تو اس خط کو اہمیت نہیں دی لیکن سخت ترین شرائط پر پاکستان کو قرض دینے کا معاہدہ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت کو سخت فیصلے کرنا پڑے اور 70 برس سے جاری سبسڈیز کو ایک سال میں ختم کرنا پڑا جس سے تیزی سے افراطِ زر میں اضافہ ہوا اور موجودہ حکومت جو پہلے ہی سیاسی عدم استحکام سے نبردآزما تھی، سیاسی قیمت ادا کرنا پڑی اور وہ واضح اکثریت سے حکومت نہ بنا سکی۔
تاہم سخت فیصلوں کے بعد معاشی اصلاحات کے نتیجے میں تیزی سے بہتری آرہی ہے اور اس کا اعتراف غیر ملکی معاشی تحقیقاتی ادارے بھی کررہے ہیں۔ سال 2024ء میں ماضی کے مقابلے میں کیا معاشی بہتری آئی اور ہمارا معاشی مستقبل کیسا ہوگا؟ آئیے اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
کیا حکومت اخراجات محدود کرنے میں کامیاب ہوئی؟
جولائی سے شروع ہونے والی مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 3 ہزار ارب روپے کا پرائمری سرپلس ریکارڈ کیا گیا جوکہ جی ڈی پی کا 2.4 فیصد ہے۔ یہ حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے اور اس کے اثرات مجموعی کاروباری ماحول اور اسٹاک مارکیٹ پر مرتب ہورہے ہیں جو دیکھے بھی جاسکتے ہیں۔
کیا ٹیکس اصلاحات سے ٹیکس وصولی کے اہداف کا حصول ہوا؟
حکومت نے رواں مالی سال میں ایف بی آر کو 12 ہزار 970 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا ہے جوکہ گزشتہ مالی سال سے 40 فیصد زائد ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ میں ایف بی آر کو 4 ہزار 639 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف ملا تھا جس کے مقابلے میں ایف بی آر 4 ہزار 295 ارب روپے کے ٹیکس وصولی کرسکا یعنی ٹیکس وصولی ہدف سے 344 ارب روپے کم رہی ہے۔ حکومت ٹیکس اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے جس میں صوبوں کے ساتھ مل کر زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کے علاوہ ایف بی آر میں بنیادی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں جن پر عمل ہورہا ہے۔
رواں سال ڈالر کی قدر میں کمی سے روپے میں استحکام دیکھا گیا
سال 2024ء کے آغاز پر روپے کی قدر میں استحکام دیکھا جانے لگا اور آئی ایم ایف سے قرض معاہدے کے بعد روپے کی قدر میں مزید بہتری آئی۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک نے بھی کرنسی کی اوپن مارکیٹ میں اصلاحات کا جامع منصوبہ دیا۔ انتظامی اور پالیسی سطح کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا ایک ڈالر جوکہ جنوری میں 280 روپے کا تھا، اب یہ 277 روپے کا ہوچکا ہے۔ اس عمل سے پاکستان میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے۔
مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی لیکن عوام کا اس کا فائدہ کیوں نہ ہوا؟
افراطِ زر کنٹرول کرنے میں پاکستان نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مئی 2023ء میں پاکستان میں افراطِ زر کی شرح 38 فیصد تھی جوکہ تاریخ کی بلند ترین سطح تھی۔ سال 2023ء میں گزشتہ سال کے مقابلے افراط زر میں 10.89 فیصد کا اضافہ ہوا اور 2023ء میں اوسط انفلیشن 30.77 فیصد رہا۔ سال 2024ء کے آغاز پر افراطِ زر میں کمی دیکھی جانے لگی اور یہ جنوری میں 28.3 فیصد کی سطح پر آگیا۔ حکومتی اقدامات، روپے کی قدر میں بہتری، معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ملک میں معاشی استحکام دیکھا گیا اور مہنگائی میں بتدریج کمی دیکھی جانے لگی اور نومبر 2024ء میں افراطِ زر کی شرح 4 فیصد کی سطح پر آگئی۔ قیمتوں میں اضافے کی شرح جوکہ مئی 2023ء میں 38 فیصد تھی، اب یہ شرح کم ہوکر 4 فیصد رہ گئی ہے۔ پہلے ہر 100 روپے پر 38 روپے کا اضافہ ہورہا تھا جوکہ اب صرف 4 روپے رہ گیا ہے۔
کیا 2024ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوا؟
سال 2024ء پر نظر ڈالی جائے تو جولائی 2023ء میں خسارہ 81 کروڑ ڈالر تھا جس میں بتدریج کمی دیکھی گئی اور جنوری 2024ء میں یہ خسارہ 30 لاکھ ڈالر رہ گیا تھا جبکہ اگست سے بیرونی ادائیگیوں میں خسارے کے بجائے بچت ہونے لگی ہے۔ اگست میں 2.9 کروڑ ڈالر، ستمبر میں 8.6 کروڑ ڈالر اور اکتوبر میں 34.9 کروڑ ڈالر بچت ہوئی۔ رواں مالی سال یہ توقع کی جارہی ہے کہ ترسیلاتِ زر 35 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گی۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے متعارف کردہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں بھی سرمائے میں اضافہ ہورہا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کھول رہے ہیں اور اس میں رقوم منتقل کر رہے ہیں۔ جنوری 2024ء میں یہ رقم 7.1 ارب ڈالر تھی جوکہ نومبر تک بڑھ کر 9.1 ارب ڈالر ہوچکی ہے۔
رواں سال مختلف ممالک نے پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا
پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ چین، ہانگ کانگ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے ممالک ہیں جبکہ گزشتہ دو سالوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں 1.9 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 77 کروڑ ڈالر سے زائد رہی جوکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے سے 48 فیصد زائد ہے۔
حکومت نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے
حکومت نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ مالی سال 2024ء سے 2029ء تک حکومتی کے ماتحت 24 اداروں کی فروخت کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس میں قومی ایئرلائنز سمیت پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل، مالیاتی شعبے میں انشورنس سیکٹر، ایچ بی ایف سی اور بینکس، یوٹلیٹی اسٹورز، صنعت اور توانائی کے شعبے کی کمپنیز شامل ہیں۔
کیا اسٹاک ایکسچینچ کے کاروبار میں اضافہ، بہتر معیشت کی علامت ہے؟
سال 2024ء کے آغاز پر کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 64 ہزار 661 پوائٹنس پر تھا جوکہ 13 دسمبر کو بڑھ کر ایک لاکھ 14 ہزار 301 ہوگیا ہے۔ اس طرح تقریباً ایک سال سے کچھ کم عرصے میں انڈیکس میں 49 ہزار 640 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے جوکہ کسی بھی اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔
فروری میں انتخابات میں حکومت کے قیام میں آنے کے بعد آئی ایم ایف پروگرام پر کامیابی سے عمل درآمد نے معاشی استحکام کو میکرو سطح پر اجاگر کیا ہے لیکن ابھی اس کے اثرات عام آدمی کو محسوس نہیں ہوئے ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ سال 2025ء ملکی معیشت کے لیے بہتر سال ثابت ہوگا۔