اگرچہ ملک کو کئی مسائل کا سامنا ہے، لیکن بڑھتی مہنگائی سب سے اہم اور سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ اس کا اثر نہ صرف حکومت بلکہ عوام پر بھی گہرا ہو رہا ہے۔ عام شہریوں کی قوتِ خرید تقریباً ختم ہو چکی ہے، اور بظاہر حکومتی دعووں کے باوجود مہنگائی میں کمی کا کوئی واضح اثر عوام کی روزمرہ زندگی پر محسوس نہیں ہوتا۔ کھانے پینے کی اشیا، ایندھن، اور دیگر بنیادی ضروریات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں ، جس کی وجہ سے عام لوگ شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال حکومت کے لیے ایک چیلنج اور عوام کے لیے ایک آزمائش بن چکی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتی اعداد و شمار عام طور پر مخصوص اشیا کی قیمتوں پر مبنی ہوتے ہیں، جبکہ عوام کے لیے مہنگائی کا مطلب ان چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہے جو وہ روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے اور خریدتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی دعوے اکثر عوام کے تجربات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ حکام اس حقیقت کو سمجھیں کہ مہنگائی کو عملی طور پر قابو کرناعوام کی فلاح کے لیے کتنا اہم ہے۔ حکومت کو نہ صرف اعداد و شمار بہتر کرنے پر توجہ دینی چاہیے بلکہ ایسی پالیسیاں اپنانی چاہییں جو عام شہریوں کی روزمرہ ضروریات کو سستی اور قابل رسائی بنائیں۔ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی کے حکومتی دعوے کا مطلب یہ نہیں کہ مہنگائی واقعی کم ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اب بھی صارفین کی روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
پاکستان میں مہنگائی کے اعداد و شمار عام طور پر سالانہ تجزیے پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں مہنگائی میں 100 فیصد سے بھی زائد اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ پاکستانی روپیہ بدستور کمزور ہے اور عوام شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے مہنگائی میں کمی کے دعوے تو کیے جاتے ہیں، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ادارہ شماریات کی حالیہ رپورٹ میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ تقریباً تین سال بعد مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ تک آ گئی ہے، لیکن عوام کو اس کا کوئی واضح فائدہ محسوس نہیں ہو رہا۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اعداد و شمار اور عملی صورتحال میں بڑا تضاد موجود ہے، جسے سمجھنے اور حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق افراطِ زر کی شرح 34 ماہ کی کم ترین سطح پر ہے۔ تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کمی صرف مہنگائی کے بڑھنے کی رفتار میں آئی ہے، اصل قیمتیں اب بھی عوام کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ عام شہری اب بھی روزمرہ اشیا کی بڑھتی قیمتوں سے شدید متاثر ہیں، اور ان کے لیے بنیادی ضروریات پوری کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، ملک کی 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشی اشاریوں میں بہتری کے باوجود عوام کی حالت زار میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ عوام کے فلاح و بہبود کے لیے مؤثر اور عملی اقدامات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکے ہیں ۔
وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں مہنگائی کی شرح میں کمی اور دیگر معاشی اشاریوں میں بہتری پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری ملک کی معاشی سمت پر اعتماد کا اظہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگست میں مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ پر آ گئی، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 27 فیصد تھی۔وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ مہنگائی کا بوجھ آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے ۔ تاہم اس کمی کو حکومتی کامیابی قرار دینا مبالغہ ہوگا کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ بجلی اور ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں بھی کمی کا تعلق زیادہ تر تیل کی کم قیمتوں سے ہے، نہ کہ کسی جامع حکومتی پالیسی سے۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق، افراطِ زر کی شرح 34 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے، لیکن ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قیمتوں میں حقیقی کمی عوام کے لیے محسوس ہونا ابھی باقی ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کو چاہیے کہ وہ پائیدار معاشی اصلاحات پر توجہ دے تاکہ عوام کو عملی ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
ماہرینِ معیشت کے مطابق، گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال مہنگائی میں حقیقی کمی نہیں آئی، بلکہ صرف اس کے بڑھنے کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود عام شہری کے لیے معاشی صورتحال بدستور پریشان کن ہے۔ روزمرہ کی اشیا کی بلند قیمتیں اور آمدنی میں عدم اضافہ عوام کے لیے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔
2023 کے دوران بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی کے شکار عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا۔ ملک کے لاکھوں خاندان بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے زندگی تنگ محسوس کر رہے ہیں۔ نچلے طبقے کی حالت تو پہلے ہی خراب تھی، لیکن اب مہنگائی نے متوسط طبقے کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ بکرے اور مرغی کا گوشت، اعلیٰ معیار کے چاول، اور دالیں جیسی بنیادی اشیا متوسط طبقے کے کھانے کے مینیو سے تقریباً غائب ہو چکی ہیں۔
آج متوسط طبقے کی بڑی تعداد قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ لوگ اپنے بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے زیورات تک فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف معاشی بے بسی بلکہ عوام کی زندگیوں پر مہنگائی کے شدید اثرات کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔
حکومت کے مطابق بجلی کی کمی پر قابو پانے کا واحد راستہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بجلی اور گیس کی سبسڈی ختم کرنا ہے۔ اس پالیسی کے تحت نرخوں میں اتنا اضافہ کیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کشش کا باعث بنے، لیکن یہ طریقہ عام عوام کے لیے ظالمانہ ثابت ہو رہا ہے۔
ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق زرعی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ حکومت کی ناقص حکمت عملی ہے۔ اگر بروقت اور دانشمندانہ پالیسیاں نافذ کی جاتیں تو عوام کو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ موجودہ حالات میں حکومت پر لازم ہے کہ وہ مہنگائی کے خاتمے کے لیے عوام دوست اقدامات کرے تاکہ لوگوں کو ریلیف مل سکے اور معیشت میں بہتری آ سکے۔
سوال یہ ہے کہ مہنگائی کیوں فروغ پاتی ہے؟ جب آمدن کے مقابلے میں ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں بڑھ جائیں تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ معاشیات کے اصولوں کے مطابق، جب زیادہ رقم میں کم اشیا دستیاب ہوں تو اسے مہنگائی کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کے بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سرِفہرست کرپشن ہے جو ہر ادارے اور محکمے کو خطرناک حد تک اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستانی روپیہ مسلسل ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں درآمد شدہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں اشیا کی قیمتوں کو قابو میں رکھنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
اضافی ٹیکسز بھی قیمتوں میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے، جو عام صارفین پر براہِ راست بوجھ ڈالتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز بلیک مارکیٹنگ، اور رسد میں رکاوٹیں بھی مہنگائی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
معیشت پر بے دریغ لیے گئے غیر ملکی قرضے بھی بوجھ بن چکے ہیں، جو نہ صرف معاشی استحکام کو کمزور کرتے ہیں بلکہ عوام کو مزید مالی مشکلات میں دھکیل دیتے ہیں۔ یہ عوامل مل کر ایسی صورتِ حال پیدا کرتے ہیں جہاں مہنگائی ایک مستقل مسئلہ بن کر عوام کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔ اس بحران پر قابو پانے کے لیے جامع اور شفاف معاشی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔
حکومتی اخراجات اور معاشی خسارے کو پورا کرنے کے لیے بے تحاشا نوٹ چھاپنا بھی افراطِ زر کے بڑھنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ جب زیادہ رقم مارکیٹ میں آتی ہے لیکن اشیا اور خدمات کی مقدار وہی رہتی ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اسی طرح، دولت کی غیر مساوی تقسیم بھی مہنگائی کو فروغ دیتی ہے، کیونکہ دولت مند افراد اپنے فائدے کے لیے وسائل کا استحصال کرتے ہیں، جس سے غریب طبقہ مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔
حکومت کی جانب سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ کمرشل صارفین، ہوٹلوں، کھاد کے کارخانوں، صنعتی شعبے، اور اسٹیل انڈسٹری کو بھی متاثر کرے گا۔ ان شعبوں میں اضافے کا بوجھ بالآخر عام شہریوں پر منتقل ہوتا ہے، کیونکہ اشیا کی پیداواری لاگت میں اضافہ ان کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
یہ اقدامات عوام کے لیے مزید مالی دباؤ کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ طویل المدتی اور عوام دوست معاشی پالیسیاں اپنائے تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جا سکے اور عام آدمی کو ریلیف فراہم ہو۔ بصورت دیگر، یہ صورتحال مزید معاشی اور سماجی مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔
ہمارے ملک میں گزشتہ کچھ عرصے سے بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ عوام کو دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں، اور مہنگائی کی شدت نے ان کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے۔ عوام کی نفسیاتی حالت بھی بگڑتی جا رہی ہے، اور بہت سے لوگ معاشی دباؤ کے نتیجے میں ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ اربابِ اختیار کو اس سنگین صورتِ حال پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کیونکہ اب مزید معاشی قتل قوم برداشت نہیں کر سکتی۔
علاوہ ازیں، جس بے رحمی کے ساتھ عوام کی معاشی زندگی اور ان کے معصوم مستقبل کے خواب چکنا چور ہو رہے ہیں، وہ ملک کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی کے واضح ثبوت ہیں۔ عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ ایک نئی سمت میں اصلاحات کی جا سکیں اور لوگوں کو بہتر زندگی کے مواقع مل سکیں۔
ملک میں جاری مہنگائی، بیروزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوام کی ذہنی حالت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، جس کے نتیجے میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ان میں ہر سال 40 سے 55 فیصد تک اضافہ رپورٹ کیا جا رہا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اس ذہنی بیماری میں ڈپریشن، اداسی، مایوسی، پریشانی، شدید غصہ، چڑچڑا پن، طبیعت میں تیزی، نیند کا اڑ جانا، اور الٹے سیدھے خیالات آنا شامل ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف افراد کی ذاتی زندگیوں پر منفی اثر ڈال رہی ہے بلکہ معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے بھی ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ جب معاشی مسائل اور سیاسی انتشار ذہنی صحت کے مسائل کو بڑھاتے ہیں تو یہ عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتا ہے۔ اس کے حل کے لیے حکومت کو نہ صرف معاشی استحکام کی کوششیں تیز کرنی ہوں گی، بلکہ ذہنی صحت کے حوالے سے بھی موثر پالیسیاں اپنانی ہوں گی تاکہ لوگوں کو اس بحران سے نکالنے کے لیے عملی مدد فراہم کی جا سکے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کی ترقی کی رفتار میں بیروزگاری ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ مہنگائی کی اس خوفناک اور دہشت ناک صورتحال کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک اور اس کے عوام سنگین بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنی معاشی ٹیم کی پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لے اور ملکی معیشت کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ ملکی معیشت بہت خراب ہو چکی ہے، اور پورا ملک پریشان ہے۔ حکومتی عہدیداروں کو چاہیے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں، اس بحران کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں اور کوئی جامع حل تلاش کریں تاکہ عوام کی مشکلات میں کمی لائی جا سکے اور معاشی استحکام کی طرف قدم بڑھایا جا سکے۔