تحریر: آصف علی یوسفزئی
پشاور کی سڑکوں پر ٹریفک کا مسئلہ ہو یا صوبے کے دیہاتی علاقوں میں صحت کی سہولتوں کا فقدان، خیبرپختونخواہ میں اصلاحات کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواہ، علی امین خان گنڈاپور کی زیر صدارت، صوبے کے مختلف اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں ٹریفک کے نظام سے لے کر پولیس اصلاحات تک متعدد موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ لیکن سوالات اب بھی وہی ہیں، جنہوں نے اس اجلاس کی معنویت کو مزید اُجاگر کیا۔
پولیس کی اصلاحات: سوالات اور چیلنجز
وزیر اعلیٰ کی میٹنگ کے دوران اہم بات یہ سامنے آئی کہ خیبرپختونخواہ میں پولیس کے نظام کو زیادہ مؤثر اور آزاد بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ سیاسی مداخلت سے بچا جا سکے۔ لیکن محمد علی بابا حیل، جو ایک تجربہ کار آفیسر ہیں، نے اپنے آرٹیکل میں جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ہمیں اس مسئلے کو اور گہرائی سے سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
1. پولیس کی خودمختاری یا سیاسی مداخلت؟
محمد علی بابا حیل نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ پولیس کی خودمختاری کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پولیس کسی سیاسی دباؤ کا شکار نہ ہو؟ یا پھر یہ کہ پولیس کا نظام مکمل طور پر آزاد ہو جائے تاکہ وہ صرف عوام کی خدمت کرے؟ وزیر اعلیٰ کے اجلاس میں یہی سوالات بھی زیر بحث آئے، اور ان کا جواب نہ صرف ضروری بلکہ چیلنجنگ بھی ہے۔ پولیس کو اس قدر خودمختاری دی جائے کہ وہ اپنا کام بغیر کسی سیاسی مداخلت کے کر سکے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی جوابدہی بھی ضروری ہو گی تاکہ عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔
2. قانون سازی اور اصلاحات کے عمل میں رکاوٹیں
وزیر اعلیٰ اور محمد علی بابا حیل دونوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اصلاحات کا مقصد صرف نئے قوانین بنانا نہیں، بلکہ ان پر مؤثر عمل درامد ہے۔ وزیر اعلیٰ کی میٹنگ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پچھلے کچھ برسوں میں پولیس کے نظام میں جتنی اصلاحات آئیں، ان کا عمل درامد انتہائی سست رہا ہے۔ یہ سوال اہم ہے: کیا حکومت نے ان اصلاحات کے لیے بجٹ مختص کیا ہے؟ کیا ان اداروں کے لیے عملی اقدام کی بنیاد رکھی گئی ہے؟
3. پولیس کا کام یا عوامی مفاد؟
محمد علی بابا حیل نے جو سوال اٹھایا وہ یہ ہے کہ پولیس کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا پولیس صرف قانون کے نفاذ کے لیے موجود ہے، یا پھر عوامی مفاد کی خدمت کرنا بھی اس کا فرض ہے؟ خیبرپختونخواہ میں خاص طور پر پولیس کے کام کا دائرہ عوامی مسائل کے حل تک محدود نہیں رہا، بلکہ کئی اداروں کے درمیان تعاون کی کمی اور وسائل کی قلت جیسے مسائل بھی موجود ہیں۔
قومی اور مقامی سطح پر اداروں کی ہم آہنگی
صوبے کی پولیس کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دیگر اداروں کے ساتھ بہترین ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ وزیر اعلیٰ کی میٹنگ میں بھی اس بات پر زور دیا گیا کہ پولیس کے ادارے کو صرف ان کے اپنے دائرہ کار میں نہیں، بلکہ دوسرے اداروں کے ساتھ کام کرنے کی آزادی بھی دی جائے۔ لیکن، سوال یہ ہے کہ کیا ہم مقامی حکومتوں کو اتنی آزادی دے سکتے ہیں؟ کیا بلدیات کے ادارے اور پولیس ایک ہی پیج پر ہوں گے؟
موجودہ صورتحال: روزگار، صحت اور دیگر مسائل
ایک اور سوال جو سامنے آتا ہے وہ روزگار کے مواقعوں کا ہے۔ آج کے دور میں جب ملک میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، کیا خیبرپختونخواہ کے حکام اس بات پر توجہ دے رہے ہیں کہ پولیس اور دیگر اداروں کے اصلاحات کے ساتھ ساتھ عوام کے روزگار کے مسائل بھی حل ہوں؟ اس کے علاوہ، صحت کے نظام میں درپیش مسائل، خاص طور پر دیہی علاقوں میں موجود ہسپتالوں کی حالت، بھی ایک اہم نکتہ ہے۔
حل اور تجاویز
پولیس اور دیگر اداروں کی اصلاحات کے لیے ضروری ہے کہ ایک مشترکہ ویژن اور متفقہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ صوبے کے تمام اداروں کی خودمختاری اور ان کی جوابدہی کے درمیان ایک توازن قائم کیا جائے، تاکہ عوام کی خدمت بہتر ہو سکے۔ اس کے علاوہ، ہر ادارے کو اپنی حدود میں کام کرنے کی آزادی دی جائے، لیکن ان کی کارکردگی کی نگرانی کی جائے۔
نتیجہ:
اس میٹنگ اور محمد علی بابا حیل کے آرٹیکل میں جو اہم نکات اٹھائے گئے ہیں، ان میں ہمیں ایک واضح پیغام ملتا ہے: اصلاحات صرف قانون بنانے تک محدود نہیں ہونی چاہئیں، بلکہ ان پر مؤثر عمل درامد کے لیے ایک مضبوط نگرانی اور جائزہ ضروری ہے۔ وزیر اعلیٰ کا اجلاس، اور اس کے ساتھ ساتھ محمد علی بابا حیل کی تجاویز، ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہیں کہ پولیس اصلاحات اور حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے سب کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔