رپورٹ ( حسن علی شاہ ) جنوبی پختونخواہ کا ضلع کرم جسکی سرحدیں افغانستان ملتی ہیں اور یہاں مختلف قبیلے صدیوں سے آباد ہیں مگر دو قومیں جن میں اھلسنت اور فقہ جعفریہ قابل ذکر ہیں.
آج سے ڈیڑھ ماہ قبل ضلع کرم کے نزدیکی علاقہ ( بگن) میں نامعلوم ملزمان نے یہاں کے مرکزی بازار کی دکانوں کو نذرآتش کرڈالا جبکہ گھروں کو بھی آتشگیر مادہ سے تباہ کردیا. ایک اطلاع کے مطابق 150 کے قریب بیگناہ افراد کو بھی شہید کیا گیا ھے جس سے فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ لاتعداد خاندان نقل مکانی کرتے ھوئے ٹل ۔ھنگو۔ کوھاٹ اور پشاور آگئے ضلع کرم میں جب حالات کنٹرول سے باھر ھوگئے تو ایک امن جرگہ تشکیل دیا گیا جس میں ضلع کرم کے سیاسی اور غیر سیاسی مشران ضلعی انتظامیہ کے اعلٰی افسران شامل کئے گئے۔
کوھاٹ میں متذکرہ جرگہ کے 3 سے زائد اجلاس منعقد کئے گئے مخالف فریقین کے تحفظات اور مطالبات پہ غوروخوض کرنے کے بعد باہمی اتفاق رائے سے ایک بامقصد اور تحریری معاہدہ کیا گیا جسکے بعد85 ٹرکوں پہ مشتمل ایک قافلہ 4 جنوری کو پشاور روانہ کیا گیا ان ٹرکوں میں ادویات خوراک ۔گیس سلنڈر۔ اور دیگر روزمرہ اشیائے استعمال شامل ہیں پشاور سے یہ قافلہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے علاوہ قانون نافذ کرنیوالے اھلکاروں کی سرپرستی میں روانہ کیا گیا مگر افسوس کہ ابھی یہ قافلہ راستے میں تھا کہ امن کے دشمنوں نے اس پہ اندھا دھند فائرنگ کردی جس میں ڈپٹی کمشنر اور 2 ایف سی اھلکار زخمی ھوئے 90 دن سے ضلع کرم کرم پارہ چنار سے پشاور تک روڈ مکمل بند ھے اور یہاں کے عوام پتھر کے زمانے کی زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومت ان تمام حالات کی ذمہ داری ایک دوسرے پہ عائد کرتی چلی آرھی ھے جبکہ گورنر فیصل کریم کنڈی جو کہ مرکز کے نمائندہ ہیں وہ صوبائی حکومت خصوصا وزیر اعلٰی علی آمین گنڈا پور کو ذمہ دار ٹھہرارھے ہیں ضلع کرم کے موجودہ تشویشناک حالات کو خدارا سیاست کی نذر نہ کیا جائے بلکہ باہمی ملی یکجہتی اور پاکستانیت کے جذبہ کو مقدم رکھا جائے کیونکہ ضلع کرم پاکستان کا جغرافیائی لحاظ سے ایک اھم حصہ ھے جبکہ یہاں صدیوں سے آباد اقوام اور قبیلے حب الوطن اور سرحدوں کے محافظ ہیں اگر بروقت کرم میں امن بحال کرنے کیلئے سخت اقدامات نہ کئے گئے تو یہ ملک وقوم سے زیادتی اور ناانصافی ھوگی جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کریگی