خیبر پختونخوا کی حکومت نے معدنی وسائل کے حوالے سے ایک نیا قانون اسمبلی میں پیش کیا ہے جس نے سیاسی ماحول کو گرم کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون معدنیات کے شعبے میں اصلاحات لائے گا، لیکن حزب اختلاف اس کو ’صوبائی وسائل پر وفاقی قبضے کی سازش‘ قرار دے رہی ہے۔
4 اپریل کو پیش کیے گئے اس نئے مجوزہ بل میں اگرچہ زیادہ تر شقیں 2017 کے معدنیات ایکٹ سے لی گئی ہیں، لیکن اس بار اسے "ترمیمی” کی بجائے نیا قانون قرار دیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ قانون ضم شدہ اضلاع میں 2030 تک نافذ نہیں ہوگا۔
پہلے محکمہ معدنیات لائسنس جاری کرتا تھا، لیکن اب "بڑے منصوبے” ایک نئی لائسسنگ اتھارٹی کے سپرد ہوں گے۔ یہ اتھارٹی دو تہائی اکثریت سے فیصلے کرے گی اور وفاقی تجاویز پر عمل درآمد بھی کر سکے گی — جس پر سب سے بڑا اعتراض ہے۔ دوسری جانب، "چھوٹے منصوبے” اب ایک الگ مائنر منرلز لائسسنگ اتھارٹی کو سونپے جائیں گے۔
ایک ایسا ڈیجیٹل سسٹم لایا جا رہا ہے جس میں تمام لیز، نیلامی اور درخواستوں کی تفصیلات موجود ہوں گی۔ مگر اس میں بھی وفاقی ہدایات پر عمل لازم قرار دیا گیا ہے، جسے حزب اختلاف "مداخلت” تصور کر رہی ہے۔
نئی اتھارٹیز میں مختلف سرکاری محکموں کے افسران، قانونی، ماحولیاتی اور جنگلات کے نمائندے، اور یہاں تک کہ جی آئی ایس آفیسر بھی شامل ہوں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے اس بل کو 18ویں ترمیم کے خلاف قرار دے کر مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ "یہ قانون پختونخوا کے وسائل پر قبضے کی سازش ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔”
یہی نہیں، پی ٹی آئی کے کچھ اپنے اراکین نے بھی اس بل پر حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ "کابینہ نے یہ بل کیسے منظور کیا؟”
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ "یہ صرف اصلاحات ہیں، اور کوئی بھی صوبائی اختیار وفاق کو نہیں دیا جا رہا۔” ان کے مطابق، "بل میں شفافیت لانے کی کوشش ہو رہی ہے، اور جو مائننگ مافیا ہے وہ اپنی گرفت ڈھیلی ہوتے دیکھ کر واویلا کر رہا ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ صرف پلیسر گولڈ کی نیلامی سے 5 ارب روپے کی آمدن ہوئی، اور مستقبل میں یہی شفافیت ہر سطح پر لائی جائے گی۔