پشاور (نیوز ڈیسک): پشاور کا مشہور ارشد سنیما 40 برس بعد مسمار کر دیا گیا، جس کے ساتھ پشتو فلم انڈسٹری کی آخری امید بھی دم توڑ گئی۔
پشتو فلم انڈسٹری کے زوال نے صرف اداکاروں، ہدایتکاروں، کہانی نویسوں، گلوکاروں، موسیقاروں، کیمرہ مینوں اور فلم سازوں کو ہی نہیں بلکہ پورے فلمی ڈھانچے کو گمنامی اور بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ پشاور کے سینما گھروں کا وجود تیزی سے ختم ہونے لگا۔
ایک وقت تھا جب پشاور میں 16 سینما گھر ہوا کرتے تھے۔ ان میں اردو، پنجابی اور بعد میں پشتو زبان کی یادگار اور صاف ستھری، نصیحت آموز فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاتی تھیں۔ فلمی شائقین نے "بل”، "میرنے رور”، "علاقہ غیر”، "درہ خیبر”، "خانہ بدوش”، "دیدن”، "ارمان”، "دھقان”، "جوارگر”، "آدم خان درخانئی”، "د پختون طورہ”، "غازی کاکا” اور "یوسف خان شیر بانو” جیسی کلاسیکل فلموں کا دور بھی دیکھا۔
بدقسمتی سے جب چند عناصر نے صرف پیسہ کمانے کی خاطر فحش فلمیں بنانا شروع کیں تو فیملیز نے سینما گھروں کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ نوے فیصد سے زائد فلموں میں بیہودہ رقص، قتل و غارت، انتقامی کہانیاں، آتشیں اسلحے کی بھرپور نمائش، نازیبا مکالمے اور گانوں کی بھرمار نے پشتون کلچر کو مسخ کر کے رکھ دیا۔ اس کے باوجود ایسے فلم سازوں اور ڈائریکٹرز نے اپنی فلموں کو اصلاحی قرار دینے پر اصرار جاری رکھا۔
اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ 1980 میں تعمیر کیا گیا ارشد سنیما بھی گرا دیا گیا ہے۔ پشاور میں اب صرف تین سینما گھر باقی رہ گئے ہیں جو بس آخری سانسیں لے رہے ہیں۔