پاکستان میں سیاسی تناؤ ایک نیا رخ اختیار کرتا نظر آ رہا ہے، کیونکہ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات ایک سنجیدہ بحران سے دوچار ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مذاکرات کے عمل میں اصل فیصلہ سازوں کو شامل کرے، تاکہ معاہدے میں کسی قسم کی ابہام سے بچا جا سکے۔
تقریباً دو ہفتوں کی بات چیت کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس وقت تک مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں جب تک اسٹیبلشمنٹ کے نمائندگان اس میں شریک نہ ہوں۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے رہنما اور مذاکراتی کمیٹی کے رکن اسد قیصر نے کہا ہے کہ حکومت کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ان اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرے جن کے پاس حقیقت میں فیصلہ سازی کی طاقت ہے۔
اسد قیصر نے اپنے بیان میں اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات میں "اسٹیک ہولڈرز” کو شامل کیا جائے، کیونکہ ان کے بقول، "جن کے پاس فیصلہ سازی کے حقیقی اختیارات ہیں ان کی سوچ ابھی تک نظر نہیں آئی۔” اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت اس وقت تک حکومت سے بات چیت نہیں کرے گی جب تک ان فیصلوں کے پیچھے موجود طاقتور افراد مذاکرات میں شریک نہ ہوں۔
پی ٹی آئی نے اس حوالے سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے حکومت کو اس بات کے لیے وقت دیا ہے کہ وہ اپنے اصل فیصلے سازوں کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ اس کے علاوہ، اسد قیصر نے دھمکی دی کہ اگر حکومت نے عمران خان تک پی ٹی آئی کمیٹی کی بلا تعطل رسائی فراہم نہ کی، تو وہ مذاکرات سے دستبردار ہو جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے ترجمان عرفان صدیقی نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات تحریری طور پر حکومتی کمیٹی کے ساتھ شیئر کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک ایسا نہیں کیا گیا۔ اس صورتحال نے مذاکراتی عمل کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، اور اس سے دونوں جماعتوں کے درمیان مزید تصادم کا خدشہ ہے۔
دوسری جانب حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے پی ٹی آئی کے اس مطالبے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے بار بار موقف تبدیل کرنے سے مذاکراتی عمل میں رکاوٹ آ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے ابھی تک اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ وہ اپنے مطالبات کو تحریری طور پر پیش کرنے کے وعدے کے مطابق کب یہ قدم اٹھائے گی۔
حکومتی کمیٹی کے رکن اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے اس بات کا جواب دیا کہ اگر ضرورت پڑی تو حکومت اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے مطالبات میں کچھ ایسے نکات ہیں جو فوج کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، جیسے 9 مئی کے واقعات، اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ان مطالبات پر بات کرنے کے لیے فوج کو مذاکرات میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
سیاسی مبصرین کا تجزیہ
سیاسی مبصرین نے اسد قیصر کے بیان کو ‘نئی شرائط’ سے تعبیر کر دیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی نے دونوں پہلے مذاکراتی اجلاسوں میں کرائی گئی اپنی یقین دہانیوں پر یوٹرن لے لیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں مشترکہ اعلامیوں میں پی ٹی آئی لیڈروں نے تحریری مطالبات حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔
اسد قیصر نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کے علاوہ جیل میں قید دیگر پی ٹی آئی لیڈروں سے بھی ان کی ملاقاتیں کرائی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری کمیٹی صرف سہولت کاری اور رابطے کا کام کر رہی ہے، اصل فیصلے عمران خان نے ہی کرنے ہیں۔ اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اور دوسرے لیڈروں سے مسلسل ملاقاتوں کا موقع فراہم کیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پی ٹی آئی کی کمیٹی مذاکرات کے اس عمل میں شریک نہیں رہے گی۔
اسد قیصر کے اس بیان سے مذاکرات میں ڈیڈ لاک کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور آئندہ اجلاس کا انعقاد غیر یقینی کا شکار ہوگیا ہے۔ سیاسی مبصرین نے اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی اپنے وعدے کے مطابق اپنے مطالبات تحریری شکل میں پیش نہیں کرتی تو مذاکرات مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اس پیچیدہ صورتحال میں، یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کس طرح اس تعطل کو حل کرتے ہیں اور آیا مذاکرات کے عمل میں کسی نئی پیشرفت ہو پاتی ہے یا نہیں۔