خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی، حیران کن امر یہ ہے کہ صوبے کے سب سے بڑے عہدے پر بیٹھا شخص، جو اپنے آپ کو "عوامی رہنما” کہلوانا پسند کرتا ہے، اس تمام بدنظمی اور بدانتظامی کی ذمہ داری وفاق پر ڈال کر خود کو بری الذمہ ثابت کرنے میں مصروف ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آخر عوام کب تک ان کھوکھلے بیانیوں اور جھوٹے دعوؤں کو برداشت کرے گی؟
پشاور: یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ خیبرپختونخوا میں لاء اینڈ آرڈر صوبائی حکومت کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے، پولیس، سی ٹی ڈی اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو ہر سال اربوں روپے دیے جاتے ہیں، لیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ نہ صرف دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ افغان سرزمین سے آئے غیر قانونی عناصر کو بھی مکمل آزادی حاصل ہے ۔
اگر گنڈا پور حکومت میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر حکومت کس بات کی ہے؟ خیبر پختونخوا کا موازنہ دوسرے صوبوں سے کیا جائے تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ تیسری بار صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت کے باوجود آج بھی صوبہ اپنی پرانی حالت پر کھڑا نظر آریا ہے ، جہاں صرف دعوے اور سیاسی نعرے تو ہیں لیکن گراونڈ پر کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ۔
چند دن قبل ایک کیس میں 40 ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف ہوا، جو کہ صرف ایک جھلک ہے پی ٹی آئی کی مالی بدعنوانی کی، سوال یہ ہے کہ اس کرپشن کا ذمہ دار کون ہے؟ کون ہے وہ سیاسی سرغنہ جو اپنے ہی صوبے کو دہشت گردوں اور کرپٹ مافیا کے ہاتھوں گروی رکھ چکا ہے؟ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ٹیکس کا پیسہ دہشت گردوں، افغان پراکسیز، اور سیاسی مفاد پرستوں کو کیوں بانٹا جا رہا ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر بار جب ان سے کارکردگی پر سوال کیا جائے تو "بیانیہ بیچنے” کی کوشش کی جاتی ہے ، لیکن اب کوئی جھوٹ، کوئی ڈرامہ، اور کوئی بوسیدہ بیانیہ ان کے جرائم اور ناکامیوں کو چھپا نہیں سکتا ۔
یہ لمحہ فکریہ ہے، خاص طور پر اس لیے کہ ایک ایسا صوبہ جو جو دہشتگردی کی فرنٹ لائن پر ہے، وہ قیادت کے فقدان، بدعنوانی اور دہشت گردوں کی سرپرستی کا مرکز بنتا جا رہا ہے ۔
اگر اب بھی خاموشی رہی تو یہ آگ صرف خیبر پختونخوا تک محدود نہیں رہے گی اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس کی ذمے داری بھی پی ٹی آئی حکومت کی ہی ہو گی ۔