قندھار کے رہائشیوں نے اطلاع دی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کئی ارکان اپنے خاندانوں کے ساتھ صوبے کے مختلف علاقوں میں منتقل کیے گئے ہیں۔ ان علاقوں میں شاہ ولی کوٹ ضلع کے کریزگی، کٹہ سنگ، تانوچہ، قاسم کلی، اور سرخ بید شامل ہیں، جو پاکستانی سرحد سے 100 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر واقع ہیں۔
ذرائع کے مطابق، ان دیہات میں مقامی لوگوں کا داخلہ محدود ہے، لیکن بڑی گاڑیوں کو اکثر تعمیراتی سامان لے جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ مقامی باشندوں نے تصدیق کی ہے کہ ان علاقوں میں غیر مقامی افراد اپنے خاندانوں کے ساتھ آباد ہو چکے ہیں۔
یہ نئے آنے والے مقامی آبادی سے مختلف نظر آتے ہیں۔ ان کے لباس، رویے، اور زبان میں نمایاں فرق ہے۔ شاہ ولی کوٹ کے ایک بزرگ نے کہا، "یہ لوگ کافی عرصے سے یہاں موجود ہیں۔ یہ دوسروں سے الگ تھلگ رہتے ہیں، زیادہ میل جول نہیں رکھتے، اور ان کی ظاہری شکل اور لہجہ مختلف ہے، جن میں لمبے بال اور منفرد لہجے شامل ہیں۔”
قندھار-ارزگان ہائی وے پر سفر کرنے والے ڈرائیوروں نے بھی مسلح افراد سے سامنا ہونے کی اطلاع دی ہے۔ ایک مقامی ڈرائیور عزیز اللہ نے بتایا، "یہ نامعلوم افراد ہر ہفتے یا دو ہفتے بعد سڑک کو زنجیروں سے بلاک کر دیتے ہیں اور مسافروں سے پیسے وصول کرتے ہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگجو گاڑیوں اور لوگوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اگست 2021 میں افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستانی عسکریت پسند ان علاقوں میں دوبارہ متحرک ہو گئے ہیں جو پہلے جنگ زدہ تھے۔ افغان طالبان رہنما اور جنگجو، جو جنگ کے دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ گزین تھے، اب واپس آ گئے ہیں اور اپنے "پرانے اور موجودہ مہمانوں” کو بھی پاکستان سے اپنے ساتھ لے آئے ہیں۔
جبکہ حقانی نیٹ ورک سے وابستہ جنگجوؤں نے خوست، پکتیا اور پکتیکا میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا لیے ہیں، وہ جنگجو جو قندھار میں بڑی لڑائیوں میں شریک تھے، اب صوبے کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ جنگجو اب پاکستانی سیکیورٹی فورسز سے لڑائی میں مصروف ہیں اور ملک میں مہلک حملے کر رہے ہیں۔
سابق رکن پارلیمنٹ خالد پشتون کے مطابق، "ٹی ٹی پی کے جنگجو اور ان کے کمانڈر شاہ ولی کوٹ اور نیش ضلع میں اپنے خاندانوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔” انہوں نے وضاحت کی کہ "پاکستان کے دباؤ کے تحت ان عسکریت پسندوں کو ڈیورنڈ لائن سے پرے منتقل کیا گیا تھا۔” یہاں یہ جنگجو اپنے خاندانوں کو محفوظ رکھتے ہیں، جبکہ نوجوان جنگجو ڈیورنڈ لائن پر لڑائی میں شامل ہو رہے ہیں اور افغان طالبان کی مدد حاصل کر رہے ہیں۔
پاکستان کی بڑھتی ہوئی تشویش
مئی 2022 میں پاکستان نے طالبان حکومت سے کہا کہ وہ پاکستانی جنگجوؤں کو سرحدی علاقوں سے نکالے۔ اس معاملے پر تبادلہ خیال کے لیے پاکستان نے چینی سفارت کاروں کو بھی قندھار بھیجا تاکہ وہ ملا ہبت اللہ اخوندزادہ سے بات چیت کر سکیں۔
طالبان نے ان جنگجوؤں کے لیے دو مقامات تجویز کیے—ایک شمالی افغانستان میں اور دوسرا جنوبی علاقے میں۔
حقانی نیٹ ورک نے انہیں شمال میں قوش تیپہ کینال کے قریب منتقل کرنے کی کوشش کی، لیکن مقامی آبادی کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ چنانچہ طالبان نے انہیں شاہ ولی کوٹ میں بسایا، جو ایک اسٹریٹجک مقام ہے اور زابل، ارزگان، ہلمند، دایکندی اور غزنی جیسے صوبوں سے رابطہ رکھتا ہے۔
ابتداء میں پاکستان کو ان پناہ گاہوں پر زیادہ تشویش نہیں تھی، لیکن جیسے جیسے ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتی گئیں، اور بلوچ عسکریت پسند جدید ہتھیار حاصل کرنے لگے، اسلام آباد نے صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرنا شروع کر دیا۔
طالبان کے لیے پیچیدہ صورتحال
افغان اور پاکستانی طالبان کے درمیان رشتہ گہرا ہے۔ یہ تعلقات مذہبی وابستگی، خاندانی رشتوں اور تاریخی پس منظر کی بنیاد پر قائم ہیں۔ ذرائع کے مطابق، دونوں گروہوں کے درمیان قندھار پر قبضے سے پہلے "میر علی معاہدہ” ہوا تھا، جو شمالی وزیرستان میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت افغان طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستانی طالبان کو پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام میں مدد فراہم کریں گے۔
خالد پشتون نے کہا، "افغان طالبان کی ٹی ٹی پی کی حمایت اس 20 سالہ جنگ کے دوران کیے گئے وعدوں کا نتیجہ ہے۔” انہوں نے مزید بتایا کہ "پاکستانی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے جانے والے افغان طالبان جنگجوؤں کی لاشیں جنوبی صوبوں، حتیٰ کہ فراح اور بادغیس تک واپس بھیجی جا رہی ہیں۔”
سابق افغان فوجی کمانڈر جنرل سمیع صادات کے مطابق، "افغان طالبان نہ صرف ٹی ٹی پی کو عسکری اور مالی مدد فراہم کر رہے ہیں، بلکہ بعض طالبان جنگجو ٹی ٹی پی میں شامل ہو کر جنگ میں مارے بھی جا رہے ہیں۔”
افغان طالبان اب ایک پیچیدہ صورت حال میں پھنس گئے ہیں۔ انہیں پاکستان کی مدد درکار ہے، کیونکہ ان کے کئی رہنما اور خاندان ابھی تک پاکستان میں مقیم ہیں۔ لیکن دوسری طرف، اسلام آباد ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے، جو طالبان کے لیے مشکل فیصلہ ہے۔
ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے سے طالبان ایک اہم اتحادی کو کھو سکتے ہیں، جبکہ ایسا نہ کرنے سے عالمی سطح پر ان کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے، کیونکہ طالبان نے 2020 کے دوحہ معاہدے میں وعدہ کیا تھا کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک پر حملے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
نتائج اور ممکنہ خطرات
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے عسکریت پسندوں اور عالمی برادری کے درمیان توازن برقرار نہ رکھا، تو اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
پاکستان نے حالیہ دنوں میں طالبان پر بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے، جس نے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔
دونوں فریقین کے درمیان عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔ طالبان کے اعلیٰ حکام میں بھی پاکستان مخالف جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغان طالبان کو اپنی بقا کے لیے نہ صرف داخلی اختلافات کو قابو میں رکھنا ہوگا، بلکہ پاکستان، عالمی برادری اور عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ تعلقات کا بھی نیا توازن قائم کرنا ہوگا۔