پشاور سے خالد خان کی تحریر :۔
پنجاب پولیس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خیبر پختونخوا پولیس نے بھی جعلی پولیس مقابلوں کی آڑ میں ماورائے عدالت قِتال کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تادمِ تحریر جن افراد کو ان مقابلوں میں مارا گیا، وہ بیشتر "بستہ الف” میں شامل ریکارڈ یافتہ مجرم تھے اور پولیس کو مختلف مقدمات میں مطلوب تھے۔ ان میں کئی سزایافتہ مجرم اور عدالتوں سے ضمانت پر رہا شدہ ملزمان بھی شامل تھے۔
تاحال خیبر پختونخوا پولیس کے حوالے سے کسی معصوم شہری کے جعلی مقابلے میں مارے جانے کی شکایت موصول نہیں ہوئی، تاہم اس طرزِ عمل کے بڑھتے ہوئے رجحان نے شدید خدشات کو جنم دیا ہے۔ پختونخوا کے آئی جی صاحبان میں مسلسل پنجاب سے تعلق رکھنے والے افسران تعینات ہوتے رہے، جن میں سے بعض نے پنجاب میں ماورائے عدالت کارروائیوں کا تجربہ حاصل کیا تھا۔ ان کے ساتھ ساتھ متعدد ایسے پشتون افسران بھی پختونخوا پولیس کا حصہ بنے جنہوں نے اپنی سروس پنجاب میں انجام دی تھی۔ انہی افسران نے صوبے میں جعلی پولیس مقابلوں کی روایت کو متعارف کرایا۔
ضلع پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ میں یہ سلسلہ خاص طور پر زور و شور سے جاری ہے۔ نوشہرہ میں ایک مخصوص سب انسپکٹر کو خاص طور پر اس مقصد کے لیے رکھا گیا ہے، جنہیں مختلف تھانوں میں "ٹارگٹ کلنگ” کی فہرستیں حوالے کر کے قلیل مدت کے لیے بطور ایس ایچ او تعینات کیا جاتا ہے، تاکہ وہ مشن مکمل کر سکیں۔ چارسدہ میں بھی یہ غیر قانونی عمل شدت سے جاری ہے۔
ان جعلی مقابلوں میں کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جاتیں۔ عموماً زیرِ حراست ملزمان کو ریکوری کے بہانے لے جایا جاتا ہے، اور راستے میں پولیس پر ان کے ساتھیوں کے مبینہ حملے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ فائرنگ میں پولیس موبائل کو چند گولیاں لگتی ہیں، ملزم مارا جاتا ہے، اور حملہ آور تاریکی کا فائدہ اٹھا کر فرار ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام کارروائیاں رات کے وقت ہی ہوتی ہیں؛ آج تک کوئی واقعہ دن کی روشنی میں پیش نہیں آیا۔
ایک اور طریقے میں مطلوبہ افراد کو دن دہاڑے گھروں سے اٹھا کر رات کی تاریکی میں پولیس مقابلے کا ڈھونگ رچا کر مارا جاتا ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ ملزم اپنے ساتھی کے ہمراہ واردات کی نیت سے چھپے ہوئے تھے اور پولیس کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کر دی۔ جوابی کارروائی میں ایک ملزم مارا گیا، دوسرے نے فرار ہونے میں کامیابی حاصل کی۔ برآمدگی میں عام طور پر ایک پستول اور موٹر سائیکل دکھائی جاتی ہے، جو اکثر چوری کی نکلتی ہے۔
تیسرے انداز میں نامعلوم افراد کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کرائی جاتی ہے۔ ناقص عدالتی نظام، کمزور تفتیش، اور گواہوں کی مصلحت پسندی کی وجہ سے جب ملزمان چھوٹ جاتے ہیں، تو پولیس انہیں جعلی مقابلے میں ختم کر کے داد سمیٹتی ہے۔ جذباتی نوجوان صحافی اور سنجیدہ حلقے بھی ان ماورائے عدالت اقدامات کو سراہتے ہیں، جس سے پولیس کو مزید شہ ملتی ہے۔ یہ روش اتنی عام ہو چکی ہے کہ صحافتی اصطلاح میں اسے "فل فرائی” اور "ہاف فرائی” کہا جاتا ہے۔
آج تک کسی اعلیٰ عدالت نے اس کا از خود نوٹس نہیں لیا، نہ کسی حکومت نے اس میں مداخلت کی کوشش کی۔ سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں، وکلا اور میڈیا ادارے بھی اس غیر قانونی رویے پر خاموش ہیں۔ جن چند صحافیوں نے آواز اٹھائی، انہیں یا تو ملک چھوڑنا پڑا یا مسلسل دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ اطلاعات تک رسائی کے قانون کے باوجود آزاد صحافت کو دبانے کی کوششیں جاری ہیں۔
کوئی مہذب معاشرہ پولیس کو اس قسم کی کھلی چھوٹ نہیں دے سکتا۔ اگر قانون و عدلیہ کی پیچیدگیاں دور نہیں کی جاتیں اور پولیس خود فیصلے کرنے لگے، تو بہتر ہے عدالتوں پر تالا ڈال کر ملک کے وسائل بچا لیے جائیں۔ صحافیوں اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ اس طرزِ عمل کی اصلاح کے لیے آواز اٹھائیں۔
یہ طرزِ فکر اب پولیس کے نچلی سطح کے اہلکاروں تک منتقل ہو چکا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال ضلع چارسدہ میں سامنے آئی، جسے اس مائنڈسیٹ کی عکاسی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے:
پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن باچا خان یونیورسٹی کے بی ایس کے طالب علم اور پی ایس ایف کے کارکن فضل امین باباخیل کو ابابیل اسکواڈ کے اہلکاروں نے بلاوجہ گولیاں مار دیں۔ فضل امین معروف سیاسی شخصیت اور چارسدہ کے موجودہ منتخب چیئرمین فضل خالق باباخیل کے بیٹے ہیں، جو ماضی میں ناظم، اور ایک بار ڈپٹی اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔
واقعہ یوں پیش آیا کہ فضل امین شام کو ہوٹل سے کھانا لے کر گھر جا رہے تھے کہ راستے میں ابابیل اسکواڈ نے انہیں روکا۔ انہوں نے اپنا مکمل تعارف کرایا، والد کا چیئرمین کارڈ دکھایا، بتایا کہ ان کی والدہ اسپتال میں داخل ہیں جن کا آج ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ہوا ہے اور وہ گھر کے لیے ہوٹل سے کھانا لے کر جا رہے ہیں۔ ان کے ایک بھائی پشاور یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں اور بہن انگلینڈ میں بار ایٹ لا کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
پولیس نے تعارف کے بعد انہیں جانے کی اجازت دے دی، لیکن جیسے ہی وہ گاڑی میں بیٹھے، پیچھے سے فائرنگ کر دی گئی۔ گولیاں فضل امین کو بھی لگیں اور ان کی گاڑی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
تاحال اس واقعے پر پولیس کی جانب سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا، اور نہ ہی ملوث اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہے۔
دریں اثنا، باچا خان یونیورسٹی کے پی ایس ایف کے صدر اسامہ خٹک نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملوث اہلکاروں کی فوری گرفتاری اور ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، اور بصورتِ دیگر احتجاج کی دھمکی دی ہے۔
پولیس رولز، عدالتی نظام اور طریقۂ کار میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ جرائم کی بیخ کنی کا حل جعلی پولیس مقابلے نہیں بلکہ قانون کی پاسداری میں مضمر ہے۔ نظام کی خرابی کو لاقانونیت کے لیے جواز بنانا ایک غیر انسانی طرزِ عمل ہے۔ اگر یہ روش ڈی پی اوز کی سطح سے سپاہیوں تک سرایت کر گئی، جیسے کہ چارسدہ کے مذکورہ واقعے میں سامنے آیا ہے، تو جلد یا بدیر یہاں جنگل کے قانون کا راج ہوگا۔ اس طرزِ عمل سے جہاں پولیس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے، وہاں پولیس تیزی کے ساتھ عوامی اعتماد کو بھی کھوتی جا رہی ہے، جو قانون کے نفاذ کے لیے زہرِ قاتل ہے۔