اسلام آباد(افضل شاہ یوسفزئی)صوبے کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے ایوانِ بالا میں کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترامیم کی حمایت کے بدلے صوبے کا نام تبدیل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرکے پختونخوا رکھا جائے تاکہ عوام کو اپنے صوبے کی پہچان حاصل ہو۔
2010 سے پہلے اس صوبے کو این ڈبلیو ایف پی کہا جاتا تھا۔صوبے کو 1932 میں سرحد صوبےکا درجہ دیا گیا، اس سے قبل 1901 میں اسے چیف کمشنر صوبے کا درجہ حاصل تھا۔ 2010 ميں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران سرحد صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھا گیا، اور اب دوبارہ اس کا نام تبدیل کرکے صرف “پختونخوا” رکھنے کا منصوبہ ہے۔
صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھنے پر صوبائی حکومت کو 5 ارب روپے اور وفاقی حکومت کو 3 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔ پرنٹنگ پریس، گورنر ہاؤس، چیف منسٹر ہاؤس، کور کمانڈر آفس، چیف سیکریٹری آفس اور دیگر سرکاری محکموں کی سٹیشنری پہلے ہی چھپ چکی تھی، جو اس تبدیلی کے بعد ضائع ہو گئی۔ نئی سٹیشنری کی تقسیم پر 4 ارب روپے سے زائد کی لاگت آئی جبکہ پرانی سٹیشنری ناکارہ قرار دی گئی۔
یہ وہ وقت تھا جب ڈالر کا ریٹ 87 روپے اور پیٹرول 97 روپے فی لیٹر تھا۔ مہنگائی کی شرح بھی صرف پندرہ فیصد تھی۔ آج کی صورتحال میں ایک بار پھر صوبے کے نام کی تبدیلی کی بات کی جا رہی ہے، لیکن کیا یہ واقعی عوام کے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے؟ یا یہ محض ایک علامتی قدم ہوگا؟
اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو جب اس صوبے کا نام سرحد سے خیبرپختونخوا رکھا گیا تھا، تو پختونخوا نام کا خیال اس وقت کیوں نہیں آیا؟
کیا واقعی صوبے کا نام تبدیل کرنے سے عوام کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا اس سے صوبے میں امن و امان قائم ہوسکے گا؟ پختونوں کی شناخت کیا صرف نام تک محدود ہے، یا انہیں تعلیم اور ترقی کی ضرورت بھی ہے؟
(جاری ہے)